منتخب تحریریں

مراکش نے تو بلے بلے کروا دی

Share

مراکش پرتگال سے ایک صفر سے جیت گیا۔ یا یوں کہیے کہ پرتگال مراکش سے ایک صفر سے پٹ گیا۔ بانوے برس کی فٹبال ورلڈ کپ تاریخ میں پہلے مسلم میزبان قطر میں پہلا افریقی عرب مسلمان مراکش سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔

یہ کوئی میچ نہیں تھا واقعہ تھا۔ یہ کھیل نہیں تھا، تاریخ کا تازہ باب تھا۔ اس حیرت انگیز کامیابی کے بعد جو بھی جو کچھ سمجھ کر جہاں جہاں ناچ رہا ہے سو بار ناچے۔

اگر آپ اسے عالمِ اسلام کی اجتماعی فتح کے روپ میں دیکھتے ہو بھلے دیکھو۔ آپ اسے ایک نئے افریقہ کی عالمی نقشے پر بااعتماد قدم رنجی سمجھ کے خوش ہوتے ہو تو بھلے خوش رہو۔

آپ اسے جزیرہ نما ہسپانیہ و پرتگال پر عربوں کی بارہ سو برس قبل کی فتح کا استعارہ جان کے ناچ رہے ہو بھلے ناچو۔ حتیٰ کہ آپ میں سے کوئی اسے باطل پر حق یا عالمِ نصارہ پر فرزندانِ توحید کی برتری سمجھ کے پھولے نہیں سما رہا ہو تو آج یہ سمجھنے کی بھی کھلی اجازت ہے۔

کاسا بلانکا سے بغداد اور بغداد سے ڈھاکہ اور جکارتہ تک ہماری زندگیوں میں اگر اس لمحے خوشی کی لہر دوڑی سو دوڑی؟ یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تو ہیں ہماری۔ کسی بڑی خوشی کے انتظار میں ان کو بھی گنوا دیا تو پھر کمایا کیا؟

یہی تو موقع ہے جب نسل در نسل ستائے ہوؤں کی موجودہ نسل کو تھوڑی بہت تسکین میسر ہے۔ یہ سوچ سوچ کر کہ جس انہونی کا ہمارے غلام باپ دادا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھا وہ خواب ہماری نسل نے پورا ہوتے دیکھ لیا۔

جب چھیاسٹھ برس پہلے ایک دن یہ خبر آئی کہ کاسئیس کلے محمد علی کلے ہو گیا ہے تو خاندان کے بزرگوں کے بقول یوں لگا گویا کاسئیس کے ساتھ ساتھ ہم نے دوبارہ کلمہ پڑھ لیا ہو۔

اس کے بعد محمد علی کلے کی ہر فائٹ اغیار پر اپنوں کی فتح کا استعارہ بن کے چھا گئی۔ ہر فائٹ سے پہلے جائے نمازیں بچھنے لگیں جن پر بیٹھ کے وہ لوگ گڑگڑاتی دعائیں مانگتے تھے جن کا کم ازکم اس جنم میں تو محمد علی کا ہاتھ یا ماتھا چومنے کا ایک فیصد امکان بھی نہیں تھا۔

مراکش، فیفا ورلڈ کپ

کاسئیس کلے محمد علی نہ بنتا تو امریکہ سے ہزاروں میل پرے پاکستان میں بالعموم اور لیاری میں بالخصوص باکسنگ کا فیشن جنون نہ بنتا۔ جیسے لیاری کے ہر گھر میں اگر ایک فٹ بالر یا فٹبال کا شائق موجود ہے تو اس کا سہرا عظیم فٹبالر پیلے کو جاتا ہے۔بھلے پیلے شاید یہ بھی نہ بتا پائے کہ لیاری کی بستی کس ملک میں بستی ہے۔ البتہ محمد علی اور پیلے کی شکل میں لیاری کو زندگی کا غم کچھ دیر کے لیے بھلانے والے ٹانک ضرور میسر آ گئے۔

ہر ورلڈ کپ کے موقع پر لیاری منی برازیل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پانچ بار عالمی چیمپیئن بننے والے برازیل کے قطر ورلڈ کپ سے باہر ہونے کا سوگ جتنا لیاری میں منایا گیا وہ اگر اہلیانِ ریو ڈی جنیرو اور ساؤپالو کے برابر کا نہ سہی تو ان سے کم بھی نہیں۔

جیسے ارتغرل دیکھ کے لاکھوں پاکستانی ازخود ارتغرل کے گھوڑے جیسے گھوڑے کو تصور میں باندھ کے خود کو بھی ارتغرل محسوس کرنے لگے۔ اپنے تئیں ارتغرل کی فروغِ اسلام کی جدوجہد پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے والے لاکھوں شائقین کے سامنے جس روز اسرا بلچیک عرف حلیمہ سلطان کی بکنی زدہ تصاویر سامنے آئیں تو میرے دوست عبداللہ پنواڑی نے صدمے میں پورے دن کا برت رکھا اور حلیمہ کی نیک راہ پر دوبارہ واپسی کی دعا کرتا رہا۔

اس سے پہلے کہ وہ صدر عارف علوی کے نام لکھے گئے خط کو ایوانِ صدر کے پتے پر پوسٹ کرتا۔ میں نے یہ خط عبداللہ سے اچک لیا۔ اس خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ صدرِ پاکستان ترک صدر کے توسط سے حلیمہ سلطان کو بکنی پہننے سے روکیں۔

محمد علی

مراکش کی فٹ بالی کامیابی استحصال زدہ تیسری دنیا کی نامکمل حسرتوں میں سے کوئی ایک حسرت اچانک پوری ہو جانے کی پرمسرت کہانی نہیں۔ صلیبی جنگیں ہارنے والا مغرب بھی ہر ایسی فتح کے موقع پر اپنا دبا ہوا جوش و خروش سینے سے باہر لانے میں زرا بھی دیر نہیں لگاتا۔

جس طرح ہم نے سکندرِ اعظم کو بچپن اور لڑکپن میں مسلمان جانا اسی طرح چی گویرا بھی ہماری محرومیوں کے بھیانک خواب سے پنڈ چھڑانے کی جدوجہدی تعبیر بن گیا۔

قطر یاد رہے گا۔ میزبان کے طور پر بھی اور بطور گیم چینجر بھی اور تاریخ سازی کے تازہ فرمے کے طور پر بھی۔

قطر یاد رہے گا کہ جس کے سٹیڈیمز کے باہر کی سڑکوں پر فلسطینی شائقین نے اسرائیلی شائقین کو قومی تاثر کی جنگ میں کھلی ابلاغی شکست دی، حالانکہ ٹورنامنٹ میں نہ تو اسرائیلی فٹ بال ٹیم تھی اور نہ ہی فلسطین کی ٹیم۔

یہی سڑکیں آزادیِ اظہار کی انگڑائی کو تشدد کے ڈنڈے سے توڑنے والی مذہبی ریاست کے حامی اور مخالف ایرانیوں کے مابین حجاب کے فوائد و نقصانات کے تناظر میں گرما گرم نعرہ زن مباحثوں کا مرکز بن گئی اور اس کے اثرات سے مہمان ایرانی قومی ٹیم بھی نہ بچ پائی۔

قطر کے ورلڈ کپ کا افتتاح تلاوت اور انسانوں کے مابین بھائی چارے کے مکالمے سے شروع ہوا۔ اختتام فاتح ٹیم کو 18 دسمبر کو ٹرافی کی تھمائی پر ہو گا کہ جس کی نقاب کشائی دیپیکا پادوکون کے ہاتھوں ہو گی۔

جس طرح کاسئیس کلے محمد علی بن کے پاکستان میں باکسنگ کا اور پیلے فٹ بال کا جنون لایا۔ کیا مراکش کے سیمی فائنل میں پہنچ جانے سے ہمارے فٹ بال کے تنِ مردہ میں بھی جان پڑ سکتی ہے؟

میں چاہوں تو اس کالم کا اختتام ’یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا‘ جیسے لا یعنی جملے پر بھی کر سکتا ہوں مگر میں ایسا کرنے کے بجائے فائنل کے نتائج کا آپ کی طرح بے چینی سے انتظار کروں گا۔