منتخب تحریریں

روح عصر پر دائمی اداروں کی گرفت اور سیاسی تماشہ 

Share

رواں برس کے اپریل میں وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب بقول ا ن کے ’’مزید خطرے ناک‘‘ ہوگئے تو میرے کئی صحافی ساتھی اس کی بابت بہت جذباتی ہوگئے۔مجھ بڈھے کو نہایت خلوص سے یاد دلانا شروع کردیا کہ پاکستان کی 60فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔وہ روایتی سیاست سے اکتا چکی ہے۔ حکمران اشرافیہ کی گرفت سے آزاد ہونے کو مچل رہی ہے۔عمران خان صاحب نے کمال ہوشیاری سے ان کے دل ودماغ پر چھائے اضطراب کو بخوبی جان لیا ہے۔مذکورہ اضطراب کو سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال سے مزید بھڑکاتے ہوئے بالآخر وہ ایسی فضا تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے خواب فیض احمد فیض جیسے شعراء ’’جب تاج اچھالے جائیں گے‘‘جیسے شعر لکھتے ہوئے کئی دہائیاں قبل دیکھ رہے تھے۔میرا وسوسوں بھرا دل مگر مان کر نہیں دیا۔

جرمنی کا ایک نہایت ہی ذہین فلاسفر تھا۔نام تھا اس کا ہیگل۔برسوں کی تحقیق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جب کوئی سیاسی بندوبست تیزی سے بدلتے معروضی حقائق کے مقابلے میں فرسودہ نظر آنا شروع ہوجائے تو عوام میں اس سے نجات کی خواہش بیدار ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تبدیلی کی خواہش کو اس نے ’’روح عصر‘‘ کا نام دیا۔ جو سیاسی رہ نما اس ’’روح‘‘ کا انسانی روپ نظر آئے ہیگل کی نگاہ میں ’’تاریخ ساز‘‘ بن جاتاہے۔اپنے دوستوں کے تجربے پر ا عتبار کرلیتا تو عمران خان صاحب موجودہ پاکستان کے تاریخ ساز شمار ہوتے جو ’’نظام کہنہ‘‘ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے اسے تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بناسکتے تھے۔

سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ دورِ حاضر کی ’’روح عصر‘‘ کیا ہے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں جہاں کی آبادی کا بیشتر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی طرح وہ بھی ’’نظام کہنہ‘‘ سے اکتائے ہوئے ہیں۔مذکورہ اکتاہٹ کی بدولت تیونس سے ایک دہائی قبل ’’عرب بہار‘‘ کا آغاز ہوا۔اس کی شدت مصر تک پہنچی تو تین دہائیوں سے اس ملک کا فرعون ہوا حسنی مبارک ’’التحریر اسکوائر‘‘ میں جمع ہوئے ہجوم کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔بالآخر اخوان المسلمین جیسی تاریخی اور منظم جماعت کا نمائندہ ’’نئی جمہوریہ‘‘ کا صدر منتخب ہوا۔اقتدار میں لیکن زیادہ عرصہ رہ نہیں پایا۔ ’’نظام کہنہ‘‘ اب وہاں شدت سے لوٹ آیا ہے۔ شام میں بھی بشارالاسدطویل اور خونی خانہ جنگی کے باوجود اس ملک کا آج بھی طاقت ور ترین صدر ہے۔تیونس ہی وہ واحد ملک بچا تھا جہاں جمہوری ہلچل کسی نہ کسی صورت برقرار رہی۔ عوام کو تسکین پہنچانے کے بجائے لیکن مذکورہ ہلچل بالآخر سیاسی عمل سے کامل اکتاہٹ کا سبب ہوئی۔

تیونس کے عوام نے روایتی سیاستدانوں سے اکتاکر بالآخر ’’قانون‘‘ کے ایک پروفیسر کو صدر منتخب کرلیا۔ اقتدار ملتے ہی وہ ’’پروفیسر‘‘ بھی روایتی آمروں والے ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع ہوگیا۔اپنے ملک کے آئین کی ’’جمہوری روح‘‘ کا اس نے اب گلاگھونٹ دیا ہے۔ پارلیمان کو برطرف کردینے کے بعد اس نے ہمارے جنرل ضیاء کی طرح چند دن قبل ’’غیر جماعتی بنیادوں‘‘ پر ایک نئی پارلیمان کھڑی کرنے کی کوشش کی۔گیارہ فی صد سے زیادہ لوگوں نے ’’نئے چہروں‘‘ کو سامنے لانے کی دعوے دار پارلیمان کے انتخاب میں حصہ ہی نہیں لیا۔ تیونس کے نوجوان اب اس ملک سے یورپ بھاگنے کے راستے ڈھونڈنے میںمصروف ہیں۔ اس ملک کی روایتی اشرافیہ کی گرفت البتہ توانا تر ہورہی ہے۔

ہیگل کی بیان کردہ ’’روح عصر‘‘ کو مصر اور تیونس جیسے ممالک کے حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے ڈھونڈنے کی کوشش کروں تو میرے جھکی ذہن کو اکثر یہ خیال آتا ہے کہ دورِ حاضر کی ’’روح عصر‘‘ ہم جیسے ممالک میں ریاست کے دائمی اداروں کی کامل گرفت ہے۔اسے کمزور کرنے کی راہ نظر نہیں آرہی۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو یقینی بناکر مثال کے طورپر عمران خان صاحب پورے ملک کو فوری انتخاب کی طرف لے جاسکتے تھے۔انہوں نے مگر جب اسے تحلیل کروانے کا اعلان کیا تو میں بدنصیب تواتر سے یاد دلانا شروع ہوگیا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے کارکن نہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ (ق)کے نام سے ایک جدا ’’ہٹی‘‘ بنارکھی ہے۔ فقط دس اراکین پنجاب اسمبلی کی طاقت سے یہ جماعت اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پنجاب کی وزارت اعلیٰ دوبڑی جماعتوں کے ہوتے ہوئے بھی لے اڑی۔ ’’مفت‘‘ میں آئے اقتدار کو اپنے ہاتھ سے پرویز الٰہی جیسے کائیاں سیاستدان جانے نہیں دیں گے۔ یہ لکھتے ہوئے مجھے ہرگز خوشی نہیں ہورہی کہ میرا دعویٰ درست ثابت ہورہا ہے۔ عدالتی مداخلت نے ان کے اقتدار کو بلکہ طوالت بخش دی ہے۔

کہانی ہمیں اب یہ سنائی جارہی ہے کہ گیارہ جنوری کے روز چودھری صاحب پنجاب اسمبلی سے ا عتماد کا ووٹ حاصل کرلیں گے۔اپنے بندے گنوادینے کے بعد صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کردیں گے۔ ’’اک ذرا صبر…‘‘ یہ کہانی گھڑنے والے اگرچہ یہ حقیقت بھلائے ہوئے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحاریک عدم اعتماد ’’باقاعدہ‘‘ دائر ہوچکی ہیں۔جمع ہوئی ان تحاریک پر گنتی کروائے بغیر صوبائی اسمبلی کی تحلیل آئینی اور قانونی اعتبار سے ممکن نہیں۔پنجاب میں سیاسی تماشہ لہٰذا مزید کچھ دنوں تک جاری رہے گا جو فوری انتخاب کی راہ ہموار کرتا نظر نہیں آرہا۔

60فی صد نوجوانوں کی نظام کہنہ کے خلاف تڑپ اگر واقعتا پاکستان کی ان دنوں ’’روح عصر‘‘ ہے۔تحریک انصاف اس کی حقیقی نمائندہ ہے تو اس کی جانب سے دئے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے اراکین اجتماعی استعفوں کی بدولت ’’انقلابی تحریک‘‘ کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ایسا مگر ہو نہیں رہا۔ تحریک انصاف کے صوبائی اراکین اسمبلی کی ا کثریت بھی دل سے یہ چاہتی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کی سرپرستی میں وہ ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کے نام پر اپنے حلقے آنے والے انتخاب کے لئے ’’پکے‘‘ کرلیں۔عمران خان صاحب ان کی خواہش سے بخوبی واقف ہیں۔ان کی ’’بلف‘‘ کال کرنے سے مگر گریز کررہے ہیں۔کامل توجہ ان دنوں جنرل باجوہ کے خلاف جارحانہ کلمات ادا کرنے پر مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ ’’سیم پیج‘‘ عمران خان صاحب کے دور اقتدار میں سنہری خواب کی صورت پیش کیا جاتا تھا۔ ان دنوں اس کے بھیانک ’’اوصاف‘‘ بیان ہورہے ہیں۔ اب کیا کرنا ہے؟ اس سوال کا جواب عمران خان صاحب بھی بیان نہیں کرپارہے۔