دنیابھرسے

ٹی ٹی پی کی شہباز شریف، بلاول بھٹو کو دی گئی دھمکیاں قابل مذمت ہیں، امریکا

Share

امریکا نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو دی گئی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک بار پھر طالبان سے افغان سرزمین کو عالمی دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کا اپنا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ گزشتہ روز کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دھمکی آمیز بیان میں حکمراں اتحاد کی 2 بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے پر غور کر نے کا اعلان کیا ہے۔

بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کا نام لے کر دھمکی آمیز رویے میں کہا گیا کہ اگر یہ 2 پارٹیاں اپنے مؤقف پر ڈٹی رہیں تو پھر ان کے سرکردہ لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور عوام ایسے سرکردہ لوگوں کے قریب جانے سے اجتناب کریں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے آج ایک پریس بریفنگ کے دوران افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ معاملہ ہمارے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، امریکا اور طالبان کے معاہدے میں طالبان نے اس بات کو یقینی بنانے کا عہد کیا تھا کہ وہ عالمی دہشت گردوں کو افغانستان کے اندر آزادانہ طور پر کام نہیں کرنے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کے چند ماہ قبل کیے گئے آپریشن نے جس میں القاعدہ کا کابل میں رہائش پذیر رہنما مارا گیا، یہ واضح کر دیا تھا کہ طالبان اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کر رہے لیکن یہ ہمارے لیے مشترکہ طور تشویشناک ہے، یہ تشویش ہم پاکستان سمیت افغانستان کے پڑوسیوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں، اس معاملے میں پاکستان کو یقیناً ان خطرات کی وجہ سے خطرناک تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہم شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن افغانستان میں امریکا، اس کے اتحادیوں اور مفادات کے لیے ابھرنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے اگر اور جب ضروری ہو تو صدر جو بائیڈن یکطرفہ طور پر بھی کارروائی کرنے کے لیے پر عزم ہیں جیسا کہ ہم نے چند ماہ قبل ایمن الظواہری کے خلاف کیا تھا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو دھمکیاں دینے سے متعلق سوال پر نیڈ پرائس نے کہا ہم اس طرح کی بیانات سے آگاہ ہیں، ہم کسی بھی گروپ کی جانب سے تشدد کی دھمکیوں کی مذمت کرتے ہیں، خاص طور پر ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپ کی طرف سے اس طرح کے تشدد کی دھمکیاں قابل مذمت ہیں۔

اس سوال پر کہ پاکستان تحریک طالبان پاکستان، ان کے پاک افغان سرحدی علاقوں میں ٹھکانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تو امریکا اس قسم کے آپریشن میں پاکستان کو کس قسم کی مدد کی پیشکش کر سکتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری ہے کہ ہم بڑے منظر نامے کو نظر انداز نہ کریں، دہشت گردی کی لعنت بدستور ایک خطرہ ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ لعنت بہت سے پاکستانی، افغانی اور دیگر معصوم شہریوں کی جانیں لے چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور پاکستان کا اس بات کو یقینی بنانے میں مشترکہ مفاد ہے کہ طالبان اپنے وعدوں کو پورا کریں اور یقینی بنائیں کہ داعش، ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپ علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے قابل نہ رہیں لیکن پاکستان کے آپریشن کے منصوبوں سے متعلق سوالات کے لیے میں آپ کو پاکستانی حکام سے رجوع کرنے کی تجویز دوں گا۔

طالبان اور پاکستانی فوج کے درمیان جاری لفظی جنگ سے متعلق سوال پر نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے دہشت گردانہ حملوں سے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے، ہم جانتے ہیں کہ طالبان نے عالمی دہشت گردوں کی افغان سرزمین پر کارروائی کرنے کی صلاحیت کو کم کرنے کے وعدے کیے تھے، ہم طالبان سے انسداد دہشت گردی کے لیے ان کی جانب سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔

اس سوال پر کہ پاکستان میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ بنیادی طور پر امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان سرحد پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کوئی کارروائی کرے، نیڈ پرائس نے کہا کہ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس کا پاکستان کو خود سامنا ہے، سرحدی علاقوں اور افغانستان کے اندر میں سرگرم دہشت گرد گروہ بہت زیادہ پاکستانیوں کی جانیں لے چکے ہیں، بلاشبہ پاکستان کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے، دہشت گردی پورے خطے کے لیے ایک مشترکہ خطرہ ہے، ہم اور ہمارے پاکستانی شراکت دار اس خطرے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان وہی کرے گا جو اس کے اپنے مفاد میں ہوگا اور جب اسے مناسب محسوس ہوگا تو وہ اپنے دفاع کے بنیادی حق کا استعمال کرتے ہوئے کارروائی کرے گا۔

اس سوال پر کہ پاکستان 20 سال سے یہی کہہ رہا ہے اور جب امریکا اور نیٹو کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی وہاں تعینات تھے تو اس وقت بھی پاکستان کو بھی یہی خدشات تھے کہ سرحد پار سے دہشت گرد دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں تو اگر امریکا، نیٹو افواج کے ساتھ مل کر ایسا نہیں کر سکتا تو طالبان ایسے ٹھکانوں پر کیسے نظر رکھ سکتے ہیں اور کیا یہ ممکن ہے؟

نیڈ پرائس نے کہا کہ واضح ہے کہ یہ امریکا اور نیٹو کے لیے ایک مستقل چیلنج رہا ہے اور اسی طرح سے یقینی طور پر افغانستان کے پڑوسیوں کے لیے بھی جو اکثر افغانستان سے ہونے والے حملوں کا اکثر شکار ہوئے ہیں، ایک مستقل چیلنج رہا ہے، پاکستان ایک قریبی اور اہم سیکورٹی پارٹنر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مشترکہ اور باہمی خطرات کے ساتھ ساتھ مشترکہ مواقع کے مناسب استعمال کے لیے مل کر کام کرتے ہیں لیکن میں کسی ایسے منصوبے یا آپریشن پر بات نہیں کروں گا جسے پاکستان کر رہا ہے یا شروع کرنے کے بارے میں سوچ بچار کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی مفروضے پر بات نہیں کروں گا، سرحد پار سے ہونے والے تشدد کے نتیجے میں بہت زیادہ پاکستانیوں کی جانیں جا چکی ہیں، ماضی میں افغانستان سے دہشت گردی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے اور ہم سب کے لیے خطرہ بن چکی ہے، ہم پاکستان کے شراکت دار ہیں لیکن بالآخر اس بارے میں فیصلے پاکستان نے خود کرنے ہیں۔

خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دھمکی آمیز بیان میں حکمراں اتحاد کی 2 بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے پر غور کر نے کا اعلان کیا ہے۔

بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کا نام لے کر دھمکی آمیز رویے میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ 2 پارٹیاں اپنے مؤقف پر ڈٹی رہیں تو پھر ان کے سرکردہ لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور عوام ایسے سرکردہ لوگوں کے قریب جانے سے اجتناب کریں۔

واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے دھمکی آمیز بیان ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوچکی ہے، 28 نومبر کو ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے فوراً بعد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا ایسا غیر معمولی سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں صرف دسمبر کے دوران 2 درجن سے زائد حملے رونما ہوئے۔

ملک میں دہشت گردی کے حملوں میں اضافے کے بعد پاکستان، افغانستان کے حکام پر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔

30 دسمبر کو وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے نجی چینل ’ایکسپریس نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا کے جن علاقوں میں ٹی ٹی پی کی موجودگی ہے، ان کو کلیئر کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر افغانستان ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کارروائی نہیں کرتا تو پھر بین الاقوامی قانون کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی دہشت گروہ کسی اور علاقے میں موجود اپنے ٹھکانے سے حملہ کرنے کا منصوبہ کرے تو اس پر حملہ کیا جاسکتا ہے‘۔

دریں اثنا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں نام لیے بغیر افغانستان کی طالبان حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ کسی بھی ملک کو دہشت گردوں کے لیے کوئی پناہ گاہ یا سہولت فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، پاکستان اس حوالے سے اپنے شہریوں کی حفاظت کے تمام حقوق محفوظ رکھتا ہے۔

گزشتہ روز 3 جنوری کو چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ تحریک طالبان افغانستان ایک حقیقت ہے جبکہ تحریک طالبان پاکستان ایک فتنہ ہے، ہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہم عمران خان کی پالیسی نہیں مانتے، ہم پاکستان میں آئین کی رٹ قائم کریں گے اور دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیں گے، پرامن لوگوں کے لیے سو بسم اللہ لیکن دہشت گردوں کو میں، حکومت یا عوام کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔