ہیڈلائن

توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

Share

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی گئی۔

قبل ازیں اسلام آباد کی عدالت میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کے کیس کی سماعت ہوئی۔

الیکشن کمیشن کی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کے معاملے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آبادکے جج ظفر اقبال کیس نے سماعت کی۔

اس حوالے سے عمران خان کی جانب سے کیس لڑنے کے لیے 4 وکلا کی ٹیم تشکیل دی گئی۔

عمران خان کی جانب سے وکلا علی ظفر، علی بخاری، خواجہ حارث اور گوہرعلی خان کیس لڑیں گے، چاروں وکلا کی جانب سے وکالت نامہ جمع کردیاگیا۔

سماعت کے آغاز پر عمران خان کی جانب سے طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جس پر جج ظفراقبال نے استفسار کیا کہ کیا مچلکے جمع کرا دیے؟ اس پر عمران خان کے وکیل گوہر علی خان نے بتایا کہ جی عمران خان کےضمانتی مچلکے کل جمع کرادیے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ ایسے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر ہوتی رہی تو فردجرم کیسے عائد ہوگی؟

عمران خان کے دوسرے وکیل علی بخاری نے اعتراض کیا کہ ہمیں مصدقہ کاپیاں فراہم نہیں کی گئیں، واٹس ایپ کی اسکرین شارٹس لگا کر کاپیاں فراہم نہیں کی جاتیں۔

اس پر الیکشن کمشین کی وکیل سعد حسن نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی وکلا کو مصدقہ کاپیاں فراہم کی ہیں، عدالت کے سامنے پی ٹی آئی وکلا کو مصدقہ کاپیاں فراہم کی ہیں۔

جج نے ہدایت کہ کہ تمام ثبوتوں کی تصدیق شدہ کاپیاں عدالت اور پی ٹی آئی کو فراہم کریں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے کہا کہ ہم آج ہی شکایات اور ثبوتوں کی مصدقہ کاپیاں فراہم کردیں گے۔

سعد حسن نے اعتراض کیا کہ عمران خان ابھی تک عدالت کیوں نہیں آئے؟ کنٹینرز پر عمران خان کو ناچتے ہوئے تو ہم نے دیکھا ہے۔

اس پر عمران خان کےوکیل علی بخاری نے کہا کہ ایسے بیانات نہ دینے جائے جس سے لگے کہ منشیوں والا کام کیا جا رہا ہے، قانون کی بات کی جائے یہ نا ہو کہ ہمیں بھی بولنا پڑے، 15 فروری کو جج رخشندہ شاہین کی عدالت میں عمران خان کی پیشی ہے، اس کے بعد کی تاریخ دےدیں۔

جج نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان نے 15 فروری کو جج رخشندہ شاہین کی عدالت میں آنا ہے؟ مجھے ایک تاریخ بتادیں کہ عمران خان کب عدالت آئیں گے؟

عمران کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ عمران خان کی صحت نے اجازت دی تو آئیں گے، ڈاکٹرز کی ہدایت پر عمل کر رہےہیں۔

اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کے وکیل اپنے ساتھ مراثی لاتےہیں۔

اس دوران پی ٹی آئی وکلا کی جانب سے کمرہ عدالت پر انہیں مراثی کہنے پر شور شرابہ کیا گیا۔

ٹی آئی وکلا نے کہا کہ ان کو کہیں اپنے الفاظ واپس لیں، الیکشن کمیشن کے وکیل منشی ہیں، ہمارے ساتھ سیاسی میدان میں مقابلہ کریں، پھر جواب دیتے ہیں۔

عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو عمران خان کے وکلا کو تصدیق شدہ کاپیاں فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی اور عمران خان کی آج حاضری سے استثنیٰ پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے تصدیق شدہ کاپیاں عمران خان کے وکلا کو فراہم کرنے تک سماعت میں وقفہ کردیاگیا۔

بعدازاں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کی آج طبی بنیادوں پر حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست منظور کرلی جس کے سبب عمران خان پر آج بھی فردجرم عائد نہ ہوسکی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی وکلا کو تصدیق شدہ کاپیاں فراہم کرنے کے بعد فردجرم کی اگلی تاریخ مقرر کی جائےگی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں عدالت نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 7 فروری (آج) کی تاریخ مقرر کی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ طبیعت کی خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔

فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے، جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی تھی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کردیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔