کھیل

بادشاہ خان: ’خواب میں ورلڈ چیمپیئن کو ہرایا تو ٹھان لی کہ ریسلر بن کر ہی رہوں گا‘

Share

’بابا کو مشکل سے منایا تھا اور ریسلنگ اکیڈمی میں داخلہ بھی ہو گیا تھا لیکن مجھ جیسا غریب لڑکا ہر مہینے ایک لاکھ روپے کیسے لاتا۔ پھر ہوسٹل میں ایک دن یہ سوچ کر سویا کہ کل واپس گھر نکل جاتا ہوں لیکن رات میں خواب دیکھا کہ میں نے عالمی مقابلے میں ورلڈ چیمپیئن رومن رینز کو ہرا دیا۔ یہ اوپر والے کا اشارہ تھا۔ میں نے بھی طے کر لیا کہ اب ڈبلیو ڈبلیو ای تک ضرور پہنچوں گا۔‘یہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع رام بن سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ عارف سلیم کا خواب ہے۔وہ ’بادشاہ خان‘ کے نام سے عالمی ریسلر بننے کے لیے گذشتہ تین سال سے انڈین پنجاب کے جالندھر شہر میں ایک عالمی ریسلر کی نجی اکیڈمی میں ڈبلیو ڈبلیو ای کے لیے تربیت حاصل کر رہے ہیں۔یہ اکیڈمی انڈیا کے ’گریٹ کھلی‘ چلاتے ہیں جنھوں نے ڈبلیو ڈبلیو ای یا ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کے ایک مقابلے میں ’دی انڈر ٹیکر‘ کے نام سے مشہور ریسلر کو ہرایا تھا۔انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ڈبلیو ڈبلیو ای طرز کی ریسلنگ کا نہ تو کوئی رجحان رہا ہے اور نہ ہی کوئی تربیت گاہ تو پھر عارف سلیم کو یہ شوق کیسے ہوا؟

ریسلر ہی کیوں بننا ہے؟

بادشاہ خان ’گریٹ کھلی‘ کے ساتھ
،تصویر کا کیپشنبادشاہ خان ’گریٹ کھلی‘ کے ساتھ

بادشاہ خان کے والد محمد سلیم انڈیا کی نیم فوجی فورس سی آر پی ایف میں انسپکٹر ہیں۔وہ کہتے ہیں ’کئی سال پہلے جب عارف پانچویں جماعت میں تھا تو میری ڈیوٹی سرینگر میں لگی۔ میں بچوں کو بھی لے گیا سوچا ان کی تعلیم کا اچھا بندوبست ہوجائے گا۔‘’پھر ایک چھُٹی کے دن میں عارف کو اپنے کیمپ لے گیا جہاں ہال میں ایک بڑا ٹی وی تھا۔ اس پر یہی ریسلنگ میچ ہو رہا تھا۔ عارف دن بھر دیکھتا رہا اور پھر گھر پر اس نے ٹی وی پر صرف یہی دیکھنا شروع کر دیا۔‘ان کا کہنا ہے کہ بادشاہ خان نے آٹھویں جماعت سے ہی ریسلر بننے کی ضد شروع کر دی تھی لیکن کسی طرح سے ان کو دسویں جماعت پاس کرائی گئی۔’میں نے کہا بیٹا یہ انڈیا کا کھیل بھی نہیں، یہ تو کروڑ پتیوں کا کھیل ہے، لیکن اس نے طے کر لیا تھا کہ ریسلر ہی بنے گا۔‘بادشاہ خان بتاتے ہیں کہ ’بابا ٹالتے رہے یہاں تک کہ میں نے 12ویں بھی پاس کر لی۔ پھر میری ضد کے آگے وہ بے بس ہو گئے اور ہم نے جالندھر میں ریسلنگ اکیڈمی کا پتہ لگایا۔‘

سلیم
،تصویر کا کیپشنسلیم کہتے ہیں کہ ’میں نے عارف کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کسی اچھے کالج میں داخلہ لو، پڑھو لکھو اور افسر بنو یا ڈاکٹر بنو‘

اس اکیڈمی کی داخلہ فیس چار لاکھ روپے ہے جبکہ خوراک اور دوسرے اخراجات پر ہر زیر تربیت لڑکے کا ماہانہ 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک خرچہ ہوتا ہے۔بادشاہ خان کے والد کہتے ہیں ’مجھ جیسے ملازم کے پاس تنخواہ کے علاوہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے عارف کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کسی اچھے کالج میں داخلہ لو، پڑھو لکھو اور افسر بنو یا ڈاکٹر بنو۔‘’لیکن اس نے کہا کہ جو خرچہ اس کی تعلیم و تربیت پر کرنا چاہتا ہوں، ریسلنگ کی کوچنگ پر کیا جائے۔‘

’پیسوں کے ڈر سے ڈائٹ کم اور سپلیمنٹ بالکل نہیں لیتا‘

بادشاہ خان کے والد نے داخلے کے وقت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ’گریٹ کھلی‘ سے فیس میں رعایت کی گزارش کی تو انھوں نے کہا کہ رعایت نہیں ہو گی تاہم بادشاہ خان کا جنون دیکھ کر وہ یہ فیس چار قسطوں میں لیں گے۔بادشاہ خان کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں میرے والدین کس طرح دوسرے خرچے کم کر کے ایک ایک پیسہ جوڑ کر مجھے پیسے بھیجتے ہیں۔‘’وہاں دوسرے لڑکے کوئی کمپرومائز نہیں کرتے، لیکن میں نے اپنے خرچے 30 سے 40 ہزار تک محدود کر دیے ہیں۔‘’تین سال سے چالیس ڈگری گرمی میں بغیر اے سی کے کمرے میں ہوں کیونکہ اے سی کمرے کا کرایہ زیادہ ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’میں بہت کم ڈائٹ لیتا ہوں اور سپلیمنٹ تو بالکل نہیں لیتا۔ میرا فوکس ٹریننگ پر ہے اور میری منزل ڈبلیو ڈبلیو ای ہے۔‘

انڈیا

تین سال بعد گھر واپسی

ٹریننگ کے دوران زیر تربیت ریسلرز کو چھُٹی نہیں دی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ بادشاہ خان تین سال کے بعد گھر لوٹے۔جب وہ گھر پہنچے تو ان کی والدہ اور بہن جذباتی ہو کر رونے لگیں اور ان کے والد انھیں دیکھنے کے لیے بہت دور سے صرف ایک رات کے لیے گھر آئے تھے۔بادشاہ خان بتاتے ہیں کہ جب وہ تین سال بعد واپس آئے تو ’میں نے اپنی بستی کو پہچانا بھی نہیں۔ سڑک بن گئی ہے، نئی دکانیں، کئی نئے مکان۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’گھر سے دوُری بہت تکلیف دہ ہوتی ہے، لیکن میں ڈبلیو ڈبلیو ای میں جانے کے لیے ایسی کئی قربانیاں دے رہا ہوں۔‘

سلیکشن کیسے ہوتی ہے؟

انڈیا

ڈبلیو ڈبلیو ای کا مطلب ہے ’ورلڈ ریسلنگ اینٹرٹینمنٹ۔‘مغربی ممالک میں اس کا خوب رواج ہے۔ لیکن عالمی مقابلوں کے لیے دنیا کے سبھی ممالک میں ٹرائلز ہوتے ہیں اور بیشتر ممالک سے نئے ریسلر چُنے جاتے ہیں۔ پھر ان ریسلرز کو عالمی مقابلوں میں حصہ لینا ہوتا ہے۔بادشاہ خان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں چند برسوں کے اندر ہی ٹرائلز ہوں گے جس میں انڈیا کے بعض بڑے شہروں میں قائم اکیڈمیوں کے ٹرینر حصہ لیں گے۔’اکیڈمی کی طرف سے جو میچز میں نے کھیلے ہیں انھیں کافی سراہا گیا۔ میرا سٹائل الگ ہے اور اس گیم میں چہرے کا ایکسپریشن بہت ضروری ہوتا ہے۔‘’میں کھیلتے وقت کافی ایگریشن دکھا پاتا ہوں۔ ٹرائلز ہوں گے تو مجھے سو فی صد یقین ہے میری سلیکشن ہو جائے گی۔‘

انڈیا

کیا یہ کھیل خطرناک ہے؟

قدیم یونان میں جس طرح گلیڈیئیٹر لڑائی کرتے تھے اور لوگ اس کا مزہ لیتے تھے، اُسی طرح ڈبلیو ڈبلیو ای کی ریسلنگ بھی ہے لیکن یہاں زیادہ تر خون خرابہ نہیں ہوتا۔البتہ کھلاڑی اگر چوک گیا تو اسے گھمبیر چوٹ آ سکتی ہے۔بادشاہ خان کہتے ہیں کہ ’اسی لیے تو ٹریننگ ہوتی ہے کہ مقابل کا وار کیسے بچانا ہے۔‘’اور پھر خطرہ تو ہر کھیل میں ہے، بس ہمارے یہاں جارحانہ انداز ہے اس سے خطرہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔‘