منتخب تحریریں

دیر آید، غلط آید

Share

فارسی محاورہ دیر آید، درست آید ہے لیکن راولپنڈی شریف کے ’’اچے ‘‘عرفان صدیقی صاحب نے اس قصور وار کے کالم’’ تسی اچے‘ اسی قصوری ‘‘ کے جواب میں’’ نواز شریف سے نہیں ’چابی برداروں‘ سے رجوع کریں ‘‘لکھا ہے۔ یہ کالم پڑھ کر فارسی محاورے کو’ دیر آید، غلط آید‘ میں تبدیل کرنے کو دل چاہتا ہے ۔خوشی کی بات ہے کہ برسوں سے تشنہ طلب سوالوں کے جواب انہوں نے دیر سے ہی سہی، دیئے تو ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر سوال کا جواب ہی غلط دیا ہے ۔جذبات کی پوشاک پہنانے سے اصول دفن نہیں ہو جاتے، غصے اور انتقام میں واقعی انسان کی نظر دھندلا جاتی ہے۔ کالم کے عنوان میں ہی ہم عوام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک کے اہم ترین سیاسی لیڈر نواز شریف کو مشورے نہ دیں بلکہ چابی برداروں سے رجوع کریں گویا عوام اپنے لیڈروں نواز شریف، عمران خان، بلاول بھٹو کو نہ مشورے دیں نہ تجاویز دیں بلکہ آئینی طور پر جس مقتدرہ کا سیاست میں کوئی کردار ہی نہیں، سیاسی معاملات میں اس سے رجوع کریں؟ گویا کالم کا عنوان ہی غیر آئینی ،غیر جمہوری اور غیر سیاسی ہے، کیا اقتدار ملنے کا نشہ اتنا ہوتا ہے کہ انسان آئین، جمہوریت اور سیاست کے بنیادی تقاضوں کو ہی بھول جائے؟ عوام ہوں یا صحافی، جمہوریت میں ہماری خواہشات کا محور و مرکز صرف سیاست دان ہیں ہم انہیں ہی مشورے دیں گے اور انہی سے رجوع کریں گے یہ ہمارا جمہوری حق ہے، البتہ پیرِ راولپنڈی پہلے بھی اپنے شاگرد جرنیلوں کو مشورے دینے میں فخر محسوس کرتے تھے اب بھی یہ کام جاری رکھیں، ہمیں اس آئینی گناہ میں شریک نہ کریں۔ وہی جنرل باجوہ جن کو آج آپ مطعون کر رہے ہیں ان کو آپ اپنے شاگرد کے طور پر متعارف کرواتے تھے اور انہیں مسلسل مشوروں سے نوازتے تھے یہ الگ بات ہے کہ آپ کے یہ مشورے میاں صاحب کو ہمیشہ الٹے پڑے۔

محترم عرفان صدیقی صاحب کے کالم سے یہ بھی پتہ چلا کہ مفادات کے تحت انسانی سوچ کس قدر جلد تبدیل ہو جاتی ہے، اس سلسلے میں نہ کوئی اصول دیکھا جاتا ہے اور نہ اپنی ساکھ کا خیال کیا جاتا ہے، کل جو بات ناجائز تھی اسے جائز کہنے میں ذرہ برابر تامل نہیں کیا جاتا۔ ابھی چند سال پہلے آپ ہی نے میاں صاحب کے ذریعے ’’خلائی مخلوق‘‘ اور کٹھ پتلیوں کا کھیل کی اصطلاحات متعارف کروائی تھیں اقتدار قریب آتا دیکھ کر آپ نے انہیں ’’چابی بردار‘‘ کہنا شروع کردیا ہے، اس ماہیت قلب پر انہیں مبارک باد ہی دی جاسکتی ہے تاہم پاکستانی لغت میں اس تبدیلی کو’ کھلا تضاد‘ کا نام دیا ہے ۔

ہم نے گرگٹ کے رنگ بدلنے کی باتیں تو سن رکھی ہیں مگر یہ کبھی نہیں سنا تھا کہ ایک دو ہفتے میں ہی ’’مرد نازاں‘‘ کا موقف تبدیل ہو سکتا ہے ۔اپنی پرانی حلیف جماعت پیپلز پارٹی نے لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی تو پیر ِراولپنڈی نے برادرم رئوف کلاسرا کے اِس سوال ’زرداری صاحب سے مصافحے پر انگلیاں گن لینی چاہیں‘ پر کہا کہ یہ تو ان کیلئے خراج تحسین ہے ۔ میرے مصالحت کے مشورے پر کالم کے جواب میں کہا کہ زرداری صاحب کہنہ مشق سیاست دان ہیں۔ اس زبانی مشق کے ساتھ جب ن لیگ کے اتحاد کا اعلان ہوا تو انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ پیپلزپارٹی کیلئے سندھ کی زمین اتھل پتھل ہورہی ہے اور بلاول کے وزیر اعظم بننے کی خواہش کو بھی ہدف تنقید بنایا، ایک ہی سانس میں ایک ہی جماعت کے بارے میں مختلف خیالات کو تضاد بیانی نہ کہیں تو اور کیا نام دیں!

سب سے دلچسپ دلیل الذوالفقار کی طرف سے طیارہ اغوا کرنے کے حوالے سے پیش کی گئی، فرمایا ’طیارہ کسی سیاسی جماعت نے نہیں مرتضیٰ بھٹو کی تنظیم الذوالفقار نے اغوا کیا تھا جسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا اور وہ اسی داغ ندامت کے ساتھ معدوم ہوگئی بے نظیر بھٹو نے پی پی پی پر کبھی اس کا سایہ تک نہ پڑنے دیا ‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پیر ِراولپنڈی اور جرنیلوں کے استاذ الاساتذہ جس رسالے تکبیر میں خامہ فرسائی کیا کرتے تھے وہ تو ہمیشہ الذوالفقار اور پیپلز پارٹی کو ایک ہی پیڑ کی دو شاخیں اور دونوں کو دہشت گرد قرار دیا کرتا تھا، اس وقت آپ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی تھے جماعت اسلامی اور آپ اس وقت جنرل ضیاالحق کے ساتھ ملکر پیپلزپارٹی کو تباہ کرنے، کوڑے مارنے اور پھانسی چڑھانے کے عمل میں برابر کے شریک تھے۔ میرے کالم نے کم از کم آپ کو برسوں پرانے احساسِ جرم سے نکلنے کا موقع تو دے دیا اور آپ نے پیپلزپارٹی کو معاف کردیا اور اس کے حق میں گواہی دے دی حالانکہ ضیاءدور میں پیپلزپارٹی پر مشکل وقت تھا تو آپ دشنام طرازوں کی پارٹی کےساتھ کھڑے تھے، برسوں بعد آپ کی سوچ میں خودتبدیلی آئی ہے تو آپ کو چاہئے کہ کم از کم اپنے ماضی کے نظریات سےعلانیہ برات کا اظہار کریں۔اس قصوروار کالم نگار نے سیاسی جماعتوں میں مصالحت کی وکالت کرتے ہوئے قابلِ احترام عرفان صدیقی صاحب کو یاد دلایا تھا کہ پاکستانی بچوں کا قتل عام کرنے والے طالبان سے مذاکرات کی بات ہوئی تو آپ کو مذاکراتی کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا اور آپ کشاں کشاں یہ کام کرنے پر آمادہ تھے مگر آج ایک سیاسی پارٹی سے مصالحت کیلئےتیارنہیں؟قبلہ عرفان صدیقی صاحب نے جواباً کہا’’ طالبان سے مذاکرات ایسے ہی تھے جیسے کسی خود سر باغی جتھے سے کئے جاتے ہیں ‘‘ ان کی سوچ میں طالبان کے حوالے سے تبدیلی خوش آئند ہے وگرنہ ان کے ماضی کے کالم گواہ ہیں کہ وہ طالبان اور انکی سوچ کےساتھ کھڑے رہے پاکستان میں کسے علم نہیں کہ پیر ِراولپنڈی برسوں ’الدعوۃ والارشاد‘ اور حافظ سعید کے جہاد کے حامی اورصلاح کار رہے ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ جب سے حافظ سعید صاحب مشکل کا شکار ہوئے ہیں پیرِ راولپنڈی نے ان کیلئے آج تک آن ریکارڈ کلمہ خیر تک نہیں کہا ۔چند سال کے اندر سوچ میں اس قدر بڑی تبدیلیوں کو کیا نام دیا جائے، مجھے تو یہ نظریاتی تبدیلی نہیں مفاداتی تبدیلی لگتی ہے ۔

ہماری حرماں نصیبی یہ ہے کہ ہمارے لیڈروں کو ایسے خوشامد پرست مل جاتے ہیں جو ان کو اچھے مشوروں سے دور کر دیتے ہیں اور انہیں صرف وہی مشورے دئیے جاتے ہیں جو انکے وقتی مفادات میںہوتے ہیں حالانکہ اچھے مشیر کا کام ہوتا ہے کہ وہ اصول پر مبنی مشورہ دے مفاد پر مبنی نہیں، فوری فائدے کو بھلا کر دور رَس فائدے کی بات کرے لڑائی کی بجائے مصالحت کا مشورہ دے کیونکہ لڑائی بالآخر دونوں فریقوں کیلئے تباہ کن ہوتی ہے۔ ہمارے لیڈر بھی اس قدر خوشامد پسند ہیں کہ وہ اصول اور مفاد، خوشامد اور حق گوئی ،جھوٹ اور سچ میں تمیز نہیں کر پاتے یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے دور میں شہباز گلوں کو فروغ ملا اور اللہ نہ کرے کہ نواز شریف دور میں ایسے ہی لڑانے والے اور دشنام بھیجنے والوں کو فروغ ملے ۔کل جب نواز شریف اور عرفان صدیقی مظلوم تھے تو ہم صحافیوں کا فرض تھا کہ ان کے حق میں بات کرتے اور آج اگر عمران خان اور اسکی جماعت کےساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں تو بھی ہم صحافیوں کا فرض ہے کہ اتنی ہی بلند آواز میں ان کے حق میں بات کریں۔ چابی برداروں سے نواز شریف کا بات کرنا بنتا ہے اگر وہ ان سے باقی باتیں طے کر کے آئے ہیں تو یہ بات کرنا بھی انہی کا فرض ہے۔ ہم تو صرف قلم کے امین ہیں یہ فرض سیاست کے امینوں کا ہے، جس کا کام اُسی کو ساجے!!