پاکستان

سیاسی فضا سازگار بنانے کیلئے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) سے مذاکرات پر پی ٹی آئی نیم رضامند

Share

سیاسی اعتبار سے مشکلات میں گھری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بالآخر یہ احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان کے انتخابی منظر نامے میں زندہ رہنے کے لیے اسے ’طاقتور حلقوں‘ پر انحصار کرنے کے بجائے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔

 رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے بریفنگ کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اگرچہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس ان جماعتوں سے بات کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے، اس مقصد کے لیے پارٹی کے منشور میں ’سیاست کی بحالی‘ کا ایک باب بھی شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کارروائیوں نے پارٹی کے حوصلے پست نہیں کیے ہیں، پابندیوں کے باوجود خیبر پختونخوا میں ’کامیاب‘ پاور شوز کے بعد پارٹی نے انتخابی مہم کے لیے ملک گیر کنونشنز منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، چاہے الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کا نشان الاٹ نہ کرے، الیکشن لڑنے پر پابندی کی صورت میں پی ٹی آئی آزاد امیدوار کھڑے کرے گی۔

بریفنگ کے دوران پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر رکھنے کی کوششوں سے آگاہ ہیں اور اس حوالے سے جوابی حکمت عملی بھی تیار کرلی گئی ہے۔

پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ہم نے 8 فروری کو کسی بھی انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور پابندی کی صورت میں ہم آزاد امیدواروں کو کھڑا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

’2018 والی غلطی نہیں دہرائی جائے گی‘

پی ٹی آئی رہنما کے مطابق پارٹی نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے بھی سبق سیکھا ہے، مثلاً پارٹی کی نمائندگی کے لیے ’غلط افراد‘ کا انتخاب نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کے بغیر حکومت بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ 2018 میں حکومت بنانا بھی ایک غلطی تھی کیونکہ ہمارے پاس واضح اکثریت نہیں تھی، عمران خان کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ 2018 میں قومی اسمبلی میں واضح اکثریت کے بغیر حکومت بنانا دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا۔

پارٹی کے ایک اور نمائندے نے کہا کہ جو ’بااختیار قوتیں‘ مایوس ہیں کیونکہ انہیں امید تھی کہ عمران خان ایک دن بھی جیل میں نہیں رہ سکیں گے لیکن اب وہ تقریباً 130 روز قید میں گزار چکے ہیں، عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور یہ صورتحال انہیں انتخابات میں تاخیر یا معطلی پر مجبور کر سکتی ہے، اس صورت میں سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔

پی ٹی آئی میں حالیہ تعیناتیوں، بالخصوص پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کی حالیہ تعیناتی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ عمران خان نے حامد خان کو پارٹی کا چیئرمین بننے کے لیے کہا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔

وکلا کے ہاتھوں پارٹی ہائی جیک ہونے کے تاثر کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی وکلا برادری کی اکثریت کی وابستگی اور ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

افغان تارکین وطن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں پی ٹی آئی رہنما نے اس معاملے کو غلط طریقے سے سنبھالنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے کہا کہ اس سے پاکستان کے لیے مسائل بڑھیں گے اور ہم پاک-افغان سرحد پر امن نہیں قائم کر سکیں گے۔