منتخب تحریریں

نہیں نہیں ہم میں سے کوئی قاتل نہیں!

Share

اب تو خیر 1947 میں قتلِ عام کرنے والی نسل کے بہت کم لوگ باقی بچے ہوں گے مگر شمالی ہندوستان سے اٹک تک آج بھی کسی بھی پچاسی نوے برس کے بوڑھے سے پوچھ لو قاتل کون تھے؟ ہر بوڑھا بتائے گا ہم نہیں تھے، مارنے والے باہر سے آئے تھے۔

اور مرنے والے؟ وہ تو سب یہیں کے تھے اسی محلے کے۔ کسی نے کسی کو بچایا؟ ہاں جی میں نے کرم چند کو بچایا، ہاں جی میں نے محمد اسلم کے پریوار کو بچایا۔ کسی قاتل کو پہچان لو گے اگر آج سامنے آ جائے؟

نہیں جی وہ تو ہجوم تھا۔ ہجوم تو بے چہرہ ہوتا ہے۔ مرنے والے یاد ہیں؟ ہاں جی ایک شیام تھا، سردار محمد تھا، پریتم سنگھ تھا، کریم کی پتنی اور بیٹی بھی تھی اور کرشنا کا بھا۔۔

سنہ 1947 سے لے کر سنہ 2020 کی دلی تک آج بھی برصغیر کے کسی کونے میں چلے جاؤ، ہر شیعہ سنی، ہندو مسلم، مہاجر سندھی، بنگالی بہاری، دلت برہمن اور اسی نوعیت کے ہر بلوے کے بعد یہی سننے کو ملے گا۔ ہم نے نہیں مارا وہ باہر سے آئے تھے۔ مرنے والے ہمارے ہی تھے۔ میں نے اسے اور فلاں نے مجھے بچایا۔

کوئی بھی نسلی، مذہبی، غیر مذہبی یا علاقائی گروہ جب تک مظلوم و محکوم رہتا ہے تب تک اسے اپنے جیسے ایک ایک انسان کا درد بلا امتیاز محسوس ہوتا ہے۔ جوں ہی اس محکوم کو بااختیاری نصیب ہوتی ہے اسکی سوچ، چال چلن، رہن سہن شعوری یا لاشعوری طور پر ان ہی جیسا ہوتا چلا جاتا ہے کہ جن کے خلاف اس نے جدوجہد کر کے اختیار چھینا۔

ماتم

جیسے انگریز دور کی پولیس ہمیں بہت بری لگتی تھی۔ آزادی ملتے ہی ہم اسی پولیس کے انھی ہتھکنڈوں کا دفاع کرنے لگے۔ کل تک جب انگریز غداری کا ایکٹ لگاتا تو اسے ہم تمغہ سمجھتے تھے۔

آج اگر کوئی کہے آزادی تو ہم انگریز کی طرح اسے ملک دشمن قرار دے کر دہشت گردی و غداری کا پرچہ کاٹ دیتے ہیں مگر ایک کام جو انگریز بھی نہ کر پایا وہ ہم نے سیکھ لیا۔

پورے پورے علاقے کو جیل بنا کر اس کی چابیاں ہوا میں اچھال دو یا کالے پانی بھیجنے کے بجائے بلیک ہول میں غائب کر دو اور رہی عوام تو اسے جنونیت کا پین کلر دے دو۔ آپ اس کا کوئی بھی اچھا سا مذہبی، علاقائی، سلانی نام رکھ لو۔ پر رہے گی یہ جنونیت ہی۔ جیسے پاگل کو فاتر العقل کہنے سے پاگل پن کم تھوڑی ہو جاتا ہے۔

یقیناً آمریت کی ہر شکل انسان کی توہین ہے مگر سب سے بری آمریت وہ ہے جو جمہوری چولے میں اکثریت کی آمریت ہو۔

جناح صاحب نے 80 برس پہلے ہی تاڑ لیا تھا۔ مگر جناح نے اکثریت کے جبر سے بچنے کے لیے جو ملک حاصل کیا اس میں فوجی آمریت کا بوٹ تو سب کے لیے مساوی تھا لیکن اکثریتی جمہوریت میں بھی اقلیتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس بابت آئین میں کئی ایسی شقیں رکھی گئیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔

انڈیا میں اکثریت کی آمریت کے ثمرات اب زیادہ کھل کے ظاہر ہونے لگے ہیں۔ جس طرح پاکستان میں تہتر کے آئین کو ہر حکمران نے اپنے مقاصد کے لیے موم کی ناک بنا کے رکھ دیا۔ اسی طرح انڈیا کے سیکولر آئین میں ایسی ترامیم لائی جا رہی ہیں کہ غیر ہندو انڈین شہری اب آئینی طور پر بھی اکثریتی جمہوریت کے رحم و کرم پر رہ جائیں۔

آئین بھلے مسلمان اکثریت کی آمریت کو یقینی بنائے یا ہندو یا ملحد اکثریت کی آمریت کو، ایسے آئین کے تحت پنپنے والے سماج سے خیر کی توقع ممکن نہیں۔ ایسے آئین میں اظہار و عقیدے کی آزادی اور قانونی مساوات وغیرہ وغیرہ جیسی اصطلاحات آرائشی بیل بوٹوں کے سوا کچھ نہیں۔

آئین سے اکثریت اور اقلیت کی اصطلاحات حذف کر کے تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی ضمانت کے علاوہ اگر موجودہ عذاب سے نجات کا کوئی اور راستہ ہے تو وہ بتایا جائے۔

اور جب تک ہمارا کمینا پن، منافقت اور گھٹیاپا برقرار تب تک سرجن سعادت حسن منٹو زندہ باد۔

’چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچے تک چلی گئی۔ ازار بند کٹ گیا۔ چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتاً کلمہِ تاسف نکلا ‘چ چ چ چ۔۔۔۔مشٹیک ہوگیا۔‘