منتخب تحریریں

بلاول بھٹو زرداری کے لئے ایک خط

Share

تاج پورہ لاہور سے اپنے ایک قاری ارشاد احمد کا خط پیش کر رہا ہوں، غور سے پڑھنے کی زحمت فرمائیں، گفتگو بعد میں ہو گی۔ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کی صداقت کے سائے میں، مَیں نے تحریر میں زبان و بیان کی کمزوریاں نظرانداز کر دی ہیں، آپ بھی ارشاد احمد ایک عام پاکستانی کے بیانیے کو اس کی فطری لہجے سے بہتی سچائی کی برکت کے آئینے میں دیکھیے۔ 

لکھتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے نظریاتی سیاست کا عہد باندھا، عوامی ووٹ سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو ایک ترقی پسندانہ مستقبل کا وژن دیا، تیسری دنیا کے ملکوں میں ایک راہنما کا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا، اسلامی کانفرنس کے انعقاد سے عالمِ اسلام کی قیادت کے راستے کھولے، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر دم لیا۔ 

بھٹو نے قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو مضبوط کرنے کے لئے عوامی شعور دیا، دشمن ملک سے 90ہزار جنگی قیدی آزاد کروائے، پھانسی کا پھندا قبول کر لیا مگر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے مشن سے باز نہ آئے۔ یاد رہے ذوالفقار علی بھٹو نے اسکول کے زمانے میں اپنے قائد کو لکھا تھا کہ پاکستان کے لئے اپنی جان بھی قربان کر دوں گا۔ 

ذوالفقار علی بھٹو نے مسلم اُمہ کو بتایا کہ اگر طاقت ہو گی تو کوئی ملک مسلمانوں کو کمزور نہیں کر سکے گا۔ یہ لفظ انگریزوں اور امریکیوں کو پسند نہ آئے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بینظیر بھٹو کی صورت میں نیا بھٹو جنم لے چکا تھا، جس جنرل ضیاء الحق نے اسے پھانسی دی تھی اسے قدرت نے آسمانوں ہی سے اٹھا لیا۔ 

وہ لوگ جو ضیاء الحق کے دس برس کے دوران اپنا کنٹرول قائم کر چکے تھے، نہیں چاہتے تھے کہ بھٹو ازم دوبارہ پروان چڑھے چنانچہ بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے آئی جے آئی کے نام سے اتحاد قائم کر کے پنجاب میں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ بینظیر بھٹو نے اقتدار میں آ کر اس وقت مرزا اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا تاکہ جمہوریت کے لئے جو کوشش کی گئی تھی وہ ختم نہ ہو مگر 18ماہ کے بعد ہی انہوں نے بی بی کی حکومت ختم کرنے کے لئے صدر غلام اسحاق خان کا ساتھ دیا۔ 

جس امریکہ کی خاطر جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دے کر پاکستان اور عوام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا، آج پاکستانی قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ عوام کس لیڈر پر بھروسہ کریں۔ قائداعظم اور قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے بعد فوجی حکومتوں، ٹیکنو کریٹس اور بیورو کریسی نے اقتدار حاصل کر کے عوام سے کوئی وفا نہیں کی۔ 

بینظیر بھٹو شہید کے بعد سیاستدانوں نے بھی حکومت میں آ کے ایسا ہی عمل دکھایا۔ بھٹو خاندان نے ووٹ کی طاقت سے انتقام لے کر یہ بات ہر دفعہ ثابت کی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سچا لیڈر تھا، قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا تھا مگر بھٹو خاندان کو عالمی طاقتوں سے مل کر صرف اس لئے پھانسیاں دی گئیں، گولیاں ماری گئیں تاکہ پاکستان کے عوام اور ملک کبھی مضبوط نہ ہو سکیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کرنی ہے تو وہ قائداعظم محمد علی جناح اور قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کو یاد رکھے۔ آصف علی زرداری نے مشکل حالات کا مقابلہ کر کے حکومت کی، اپنی بیگم بینظیر بھٹو تک کی قربانی کا غم سہا۔ 

والد کا تجربہ بلاول بھٹو کے کام آئے گا مگر اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اب بھی عوام کی طاقت بھٹو خاندان کے ساتھ ہے۔ عوام نے اگر ہر دفعہ بھٹو خاندان کا ساتھ دیا تو بھٹو خاندان نے بھی عوام کو نہیں چھوڑا، اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ بتائو کسی اور لیڈر یا خاندان نے اتنی قربانیاں دیں؟۔ خدا بلاول بھٹو زرداری کو ایک بار پھر کامیاب کرے گا، عوام کے ووٹ سے بلاول بھٹو زرداری ثابت کر دے گا کہ بھٹو خاندان کا چراغ اب بھی موجود ہے۔ 

قائدِ پاکستان اور قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی طرح بھٹو خاندان کو صرف یہ سوچنا ہوگا کہ اب صرف عوام کے حقیقی نمائندے ہی قابلِ قبول ہوں گے۔ صرف عوام کے خدمت گزار ہی بلاول بھٹو زرداری کی فہرست میں ہونے چاہئیں۔

ارشاد احمد! ایک عام پاکستانی کا خط کیا ہے؟ اس کی سوچوں کی تصویر، اس کے لاشعوری حسین خوابوں کا ایک جہاں جس کی عملی تعبیر دیکھنے کی آرزو، اس نے اس روز پالی جس روز اسے سندھ کی وادیوں سے یہ صدائے حق سنائی دی تھی۔ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ 

وہ کوئی دانشور نہیں مگر اس کے حسین خوابوں کے چکنا چور ہونے کے اسباب تک اس کا قدرتی ادراک بالکل صحیح سمت سفر کرتا ہے۔ آپ اس خط میں ذکر کئے گئے تمام کرداروں کے ناموں پر غور کریں قائداعظم، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، امریکہ یا انگریز، مرزا اسلم بیگ، بینظیر بھٹو شہید، غلام اسحاق، نواز شریف یا آئی جے آئی، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو گویا جن کرداروں نے اس کا تارپود بکھیر دیا وہ بھی ایک لمحے کو اس کی نظروں سے اوجھل نہیں۔ 

ابھی تک بھٹو خاندان کے ساتھ بندھی اس کی ڈوری ٹوٹی نہیں۔ میں اپنی کسی قیاس آرائی کا حوالہ دے کر ارشاد احمد کی آس کا تار توڑنا نہیں چاہتا اس سمیت عوام کو بلاول کی وہ تصویر دیکھنے کا مشورہ دینے کا البتہ خواہاں ہوں۔

بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب کا دورہ میں پارٹی ورکر سے تعلق کی عظمت منوانے کا اہتمام کیا۔ اس اہتمام کے دوران پارٹی ورکروں نے جس طرح شرکت کی ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے بلاول بھٹو زرداری کو ضرور کامیاب کریں گے۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے ٹھیک کہا کوئی اسپتال بنانے سے سیاستدان نہیں بن جاتا، عوام کی جنت کسی کا دان نہیں طاقت کا سرچشمہ ہے جسے درکار ہے وہ لوگوں کے سامنے دو زانو ہو کے گھٹنے ٹیک کے سر تسلیم خم کر کے حاضر ہو، یقین کرلے کہ سیاسی شطرنج کے چہروں کی دنیا آباد کر کے بھٹو خاندان کے عوامی رشتے کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ارشاد احمد کا خط ختم ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوام کے معاملے پر جو کہنا ہے وہ ان شاء اللہ تعالیٰ پھر کہیں گے۔