پاکستان

غریبوں کا کورونا وائرس: ایک ہی گھر میں 11 مریض، چھوٹے مکانوں میں قرنطینہ کرنے والوں کی مشکلات

Share

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں دو صحافی بھائی کورونا وائرس سے کیا متاثر ہوئے کہ پورا گھرانہ اس کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔

پانچ مرلے کے مکان میں مشترکہ خاندانی نظام کے تحت 17 افراد مقیم ہیں جن میں اب بچوں اور خواتین سمیت 11 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے وہ افراد جو چھوٹے مکانوں میں رہتے ہیں مگر ان کے خاندان والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، انھیں بالخصوص یہ دشواری سامنے آ رہی ہے۔

واضح رہے کہ خیبر پختون خوا میں مئی کے پہلے ہفتے کے دوران کُل 1329 نئے متاثرین کی شناخت ہوئی ہے جبکہ 63 افراد کی موت ہو چکی ہے۔

پشاور
خیبر پختون خوا میں مئی کے پہلے ہفتے کی صورتحال

متاثرہ صحافی کے ساتھ ہوا کیا ہے ؟

پشاور کے ایک مقامی صحافی ارسلان (فرصی نام) اپنی ڈیوٹی کے لیے ایک ایسے علاقے میں گئے جہاں اس وائرس سے متاثرہ افراد مقیم تھے۔

انھوں نے باہر سے ہی اس مقام پر کوریج کی اور واپس آ گئے۔ تاہم بعد میں انھیں بخار کی کیفیت محسوس ہوئی تو وہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ٹیسٹ کرانے چلے گئے۔ دوسرے روز انھیں فون کال موصول ہوئی کہ ان کا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے اس لیے وہ ہسپتال آ جائیں۔

ارسلان بتاتے ہیں کہ وہ ہسپتال پہنچے اور انھیں کچھ دوائیں لکھ دی گئیں اور کہا کہ وہ اپنے مکان میں ہی ایک کمرے تک محدود ہو جائیں یعنی ازخود قرنطینہ میں منتقل ہو جائیں۔

انھوں نے ہسپتال کے عملے کو بتایا کہ وہ تو مشترکہ خاندانی نظام کے تحت والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتے ہیں اس لیے ایک چھوٹے سے مکان میں خود ساختہ علیحدگی ان کے لیے مشکل ہوگی۔

ارسلان بتاتے ہیں کہ اس کے بعد وہ گھر چلے گئے جس کے بعد ان کے دوسرے بھائی کو بھی وائرس لگ گیا، جو خود بھی نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں۔

پشاور
ارسلان کو ڈر ہے کہ اگر حکومت نے توجہ نہ دی تو ہو سکتا ہے کہ باقی گھر والے بھی وائرس سے متاثر ہو جائیں

ارسلان کہتے ہیں کہ انھوں نے حکومت سے اپیل بھی کی اور اس بارے میں مشیر اطلاعات اجمل وزیر سے بھی رابطہ ہوا۔ اجمل وزیر نے انھیں اور ان کے متاثرہ بھائی کو سرکاری سطح پر قائم کسی قرنطینہ مرکز میں منتقل کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن صرف وعدے ہی کیے گئے اور تسلیاں دی گئیں۔

ارسلان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد اگلے چند ہی دنوں میں ان کے گھرانے کے 11 افراد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے جن میں ان کی بیوی، چھوٹی بیٹی، بھتیجی، بڑے بھائی اور دیگر افراد شامل ہیں۔

ارسلان کو ڈر ہے کہ اگر حکومت نے توجہ نہ دی تو ہو سکتا ہے کہ باقی گھر والے بھی وائرس سے متاثر ہو جائیں۔

مکان کیسا ہے اور کتنے کمرے ہیں؟

ارسلان پشاور میں پانچ مرلے کے ایک مکان میں رہتے ہیں جس میں پانچ کمرے ہیں۔ تین بھائی شادی شدہ ہیں اور ان کے بچے بھی ہیں جبکہ دو بھائی ابھی کنوارے ہیں۔

تین شادی شدہ بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک ایک کمرے میں رہتے ہیں جبکہ والدہ اور دو بھائی ایک کمرے میں رہتے ہیں۔

ایک کمرہ بیٹھک کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں اکثر مہمان آتے رہتے ہیں۔ ایسے مکان میں اپنے آپ کو علیحدہ رکھنا انتہائی مشکل تھا اس لیے ابتدا میں تو دونوں متاثرہ بھائی مکان کی چھت پر رہنے لگے۔

تاہم اس کے بعد دیگر متاثرہ افراد بھی ان کے ساتھ آ گئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گھر کے چار کمروں اور چھت پر کورونا وائرس سے متاثرہ افراد رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں ان کی والدہ اس سے متاثر نہ ہو جائیں۔

چھوٹے مکان زیادہ مکین

پاکستان میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو یا کم آمدنی والے ہیں یا وہ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ایسے افراد کے سر پر چھت کا ہونا ہی ایک بڑی نعمت ہے اور اس صورت میں یہ توقع کرنا کہ ان پاس اتنی جگہ ہو کہ وہ الگ تھلگ رہیں، ممکن نہیں ہے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے ایسے افراد چھوٹے رقبے والے مکانات میں رہتے ہیں مگر ان کے اہل خانہ کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

اندرون پشاور شہر میں تین مرلے اور چار مرلے کے مکانات ہیں جہاں مشترکہ خاندانی نظام کے تحت لوگ رہتے ہیں۔

پشاور
ارسلان نے ہسپتال کے عملے کو بتایا کہ وہ تو مشترکہ خاندانی نظام کے تحت والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتے ہیں اس لیے ایک چھوٹے سے مکان میں خود ساختہ علیحدگی ان کے لیے مشکل ہوگی

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حکومتی لائحہ عمل کیا ہے

بنیادی طور پر حکومت کی جانب سے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر یعنی عمل درآمد کا طریقہ کار یا لائحہ عمل تو وضع کیا جا چکا ہے جس کے تحت کورونا وائرس کے شکار افراد کو کیسے، کہاں اور کس طرح رکھا جائے گا۔

سرکار کی جانب سے جاری ضابطہ کار یا ہدایت نامے کے مطابق قرنطینہ کے لیے وائرس سے متاثرہ اور وائرس کے شبہ میں آنے والے افراد کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ان چار میں انفرادی یا گھروں میں قرنطینہ، اجتماعی یا غیر ممالک سے آنے والے افراد، کمیونٹی اور ہیلتھ ورکرز شامل ہیں۔

لیکن اگر انفرادی افراد کو کورونا وائرس لاحق ہو جاتا ہے تو حکومت انھیں یہی کہتی ہے کہ وہ خود کو گھروں میں محدود رکھیں یا از خود علیحدگی اختیار کر لیں۔

اس از خود علیحدگی یا قرنطینہ کے لیے کیا کچھ ضروری ہے، اس ضابطہ کار میں اس کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

گھروں میں قرنطینہ کے لیے ضروری ہے کہ متاثرہ شخص اور اس کے مکان کی باقاعدہ شناخت کی جائے۔

ان کے ٹیلیفون نمبر، عمر، گھر کا پتہ، مذکورہ شخص کی طبی حالت، اور مکان کا خاکہ ہونا چاہیے اور اس خاکے میں گھر میں داخل ہونے والے راستے، اور رابطے کے لیے باہر سے رسائی کیسے ہو سکتی ہے کی معلومات ضروری ہیں۔

اس کے علاوہ مکان میں ٹیلیفون کا ہونا ضروری ہے جبکہ تازہ پانی کی فراہمی، کموڈ اور سنک یا بیسن سے مزین باتھ روم، اور علیحدہ کمرہ جس میں متاثرہ شخص رہ سکے۔

یہ ضابطہ کار کہنے کو تو بہت مناسب ہے لیکن زمینی حقائق سے بالاتر ہے۔ جیسا کے پہلے بتایا گیا، پاکستان میں بڑی آبادی ایسے مکانات میں رہتی ہے جہاں ایک ایک کمرے میں پورے خاندان رہتے ہیں اور باتھ روم یا رفع حاجت کے لیے باہر جانا پڑتا ہے یا ایسے فلیٹس ہیں جہاں ایک باتھ روم مختلف خاندان یا افراد استعمال کرتے ہیں۔

حکومت کیوں خاموش ہے؟

اس بارے میں صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا سے رابطے کے لیے کوششیں کی گئیں اور انھیں سوالات بھجوائے گئے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات اجمل وزیر سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے بھی رابطہ نہیں ہو سکا۔

اس حوالے سے متاثرہ صحافی ارسلان نے بتایا کہ جب ان کی اجمل وزیر سے بات ہوئی تو صوبائی مشیر نے انھیں تسلیاں دیں اور کہا کہ حکومت ان کے لیے کوشش کرے گی لیکن حکومت کی جانب سے اب تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

ارسلان کا کہنا ہے کہ اگر صوبائی حکومت انھیں بروقت قرنطینہ کی سہولت فراہم کر دیتی تو آج ان کے گھرانے کے دیگر افراد اس وائرس سے متاثر نہیں ہوتے۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے متاثرہ صحافیوں کے لیے پیکج کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ وزیر اعلی محمود خان اور مشیر داخلہ اجمل وزیر کا کہا تھا کہ صحافیوں کا علاج سرکاری خرچ پر ہوگا اور انھیں پیکج فراہم کیا جائے گا۔

یہ اعلانات ذرائع ابلاغ پر جاری کیے گئے لیکن اگر کورونا وائرس سے متاثرہ اس صحافی کے بیانات کو دیکھا جائے تو عملی طور پر کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔