صحت

کورونا وائرس اور دیگر بیماریوں سے نمٹنے کے انوکھے طریقے

Share

عالمی ادارہ صحت کے مطابق نظر انداز کی جانے والی ٹراپیکل بیماریوں سے دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ افراد متاثر ہوتے ہیں اور اِن بیماریوں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں پر ہر برس اربوں ڈالر کا بوجھ پڑتا ہے۔

غریب آبادیوں میں، جہاں صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام نہ ہونے اور مویشیوں کے آس پاس رہنے کی وجہ سے لوگ ایسی متعدی بیماریوں کے سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں جو بارانی اور نسبتاً گرم موسمی حالات میں جنم لیتی ہیں۔

مزید مشکل یہ ہے کہ خسرہ اور ٹی بی جیسے امراض جن پر ایک صدی پہلے تقریباً قابو پایا جا چکا تھا اب دوبارہ بڑھ رہے ہیں۔ اِس کے علاوہ ’نورو‘ وائرس اور فلو جیسی قابلِ علاج بیماریاں بھی ہزاروں ہلاکتوں کا سبب بن رہی ہیں۔

خوش قسمتی سے نئی طبی ٹیکنالوجی میں انفیکشن پر قابو پانے، وباؤں کو روکنے اور یہاں تک کہ بیماریوں سے متاثر دور دراز علاقوں تک جان بچانے والی اشیا پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے۔

جراثیم کُش پینٹ، سفوف کی شکل میں ویکسین اور ڈرون کے ذریعے انسانی اعضا کی ترسیل جیسی جدید ٹیکنالوجی اب تیزی سے عام حقیقت بنتی جا رہی ہیں۔

فوری طور پر تو یہ سہولیات مختلف بیماریوں میں مبتلا لوگوں میں شرحِ اموات کم کر سکتی ہے۔ جبکہ مستقبل میں ٹیکنالوجی ان متعدی بیماریوں کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے جس سے بیماریوں پر قابو پانے کے عالمی منصوبوں کو فائدہ ہو گا۔

بغیر درد والی انسولین

انسولین

کچھ ادویات صرف انجیکشن کے ذریعے ہی دی جا سکتی ہیں۔ بار بار سوئی کا چبھنا مریض کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے اور طبی عملے کے لیے بھی مشکل کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ کچھ علاقوں میں جراثیم سے پاک سوئیوں کی کمی سے بھی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے۔

امریکہ کی ایم آئی ٹی اور ہاورڈ یونیورسٹی نے ایک ایسی تہہ دار گولی ایجاد کی ہے جو انسان کے نظامِ ہاضمہ سے ماورا ہو کر خون میں انسولین شامل کرتی ہے۔ ایک مرتبہ جب یہ گولی نگل لی جائے تو اِس میں موجود انسولن نکل کر معدے کی دیوار میں جذب ہو جاتی ہے۔ ذیابیطس کی ٹائپ ون میں مبتلا افراد جلد ہی اِس مٹر کے دانے جتنی بڑی گولی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

جراثیم کُش رنگ

ہسپتال میں زیرِعلاج مریضوں میں سے تقریباً 10 فیصد ہسپتالوں میں اپنے قیام کے دوران کسی نئی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اِس کا سبب جراثیم سے بھرے آلات اور ہسپتال کے در و دیوار ہوتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے صرف امریکہ میں ہر سال ایک لاکھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں سات لاکھ افراد ہسپتالوں سے لگنے والی بیماریوں کا شکار ہو کر ہلاک ہوتے ہیں جن میں ٹی بی، ایچ آئی وی اور ملیریا جیسی بیماریاں بھی شامل ہیں جو دواؤں کے خلاف مدافعت رکھتی ہیں۔

ابھی حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف جراثیم کی بڑھتی ہوئی مدافعت کو صحت کی عالمی ایمرجنسی قرار دیا ہے۔

اِس کے ردِعمل میں امریکہ کے خوراک اور ادویات کے محکمے اور رنگ بنانے والی دنیا کی صفِ اول کی کمپنیوں نے مشترکہ طور پر کئی ایسے جراثیم کش محلول بنائے ہیں جنھیں طبی آلات اور ہسپتال کی دوسری اشیا پر لگایا جا سکتا ہے۔

عام رنگوں کی تیاری کے دوران اِس جراثیم کش رنگ کو ان میں ملا دیا جاتا ہے۔ یہ رنگ ہسپتال کے در و دیوار اور سامان پر چڑھائے جاتے ہیں اور خشک ہونے کے بعد یہ جراثیم، پھپھوندی اور فنجائی کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔

بائیو کوٹ نامی ایک کمپنی نے، جو ایسا ہی ایک اینٹی مائکروبل پینٹ بناتی ہے، اینٹی بائیوٹک ادوایات کے خلاف مدافعت رکھنے والے سپر بگ سے نمٹنے کے لیے ایک مؤثر نظام متعارف کرایا ہے۔

جعلی ادویات کی روک تھام کا جدید طریقہ

کوڈ

فراڈ کی وجہ سے عالمی معیشت کو سالانہ تین ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

کارپوریٹ کرپشن سے لے کر جعلی الیکٹرانکس اور شناخنت کی چوری تک کوئی بھی صنعت فراڈ سے بچی ہوئی نہیں ہے۔ اسی طرح صحت کا شعبہ بھی فراڈ سے محفوظ نہیں ہے جہاں کچھ مخصوص ادوایات میں تو 70 فیصد تک جعلی ہوتی ہیں۔

رواں سال فروری کے آغاز میں ڈبلیو ایچ او نے بتایا تھا کہ خون کے سرطان کی ایک جعلی دوا جو اِس کی اصلی دوا ’ایکلوزگ‘ کی کاپی ہے اور جسے برطانیہ کے لیے تیار کیا گیا تھا، اب یورپ اور امریکہ میں بھی دستیاب ہے۔

اِس کے علاوہ ڈاکٹروں کو اینٹی ملیریا گولیوں میں نشے کی دوا ’ایکسٹیسی‘ اور جنسی قوت کے لیے استعمال ہونے والی دوا ’ویاگرا‘ کی باقیات ملی ہیں۔

ادویات اصلی ہیں یا جعلی یہ معلوم کرنا تقریباً اتنا ہی مشکل ہے جتنا بینک اکاؤنٹس کی نگرانی کرنا۔ ادویات کی ترسیل کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے، جس میں درجنوں سپلائرز اور کئی ممالک شامل ہوتے ہیں، جعلی ادویات بنانے والوں کو موقع ملتا رہتا ہے۔

اصلی اور مستند ادویات کی مارکیٹ منشیات کی مارکیٹ سے بڑی ہو چکی ہے۔ ڈرگ ڈیلرز کو بھی یہ حقیقت معلوم ہے اور جب کوئی مریض جعلی دوا کھانے کی وجہ سے صحت یاب نہیں ہوتا تو عام طور پر ڈاکٹر دوا کے بجائے بیماری کو موردِ الزام ٹھراتے ہیں۔

لیکن اب یہ سب جلد ہی تبدیل ہونے والا ہے۔

کپیوٹر بنانے والی کمپنی آئی بی ایم کے محقق ’کرپٹو اینکرز‘ تیار کر رہے ہیں یعنی ایسے ڈیجیٹل فنگر پرنٹس جنھیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

ادویات کے مصدقہ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ان فنگر پرنٹس کو ادویات پر لگا کر ’بلاک چین‘ سے منسلک کر دیا جائے گا۔ بلاک چین ڈیجیٹل ریکارڈ کی وہ فہرست ہے جو انکرپٹڈ کوڈ سے منسلک ہے۔ اِسے بلاکس کہتے ہیں۔

یہ کرپٹو اینکرز جو ریت کے ذرے سے بھی چھوٹے ہیں کئی صورتیں اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ کھانے کے قابل ہیں اور انھیں گولیوں پر لگانے سے اصلی اور جعلی گولیوں کا فرق معلوم ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے اصلی اور نقلی ہیرے کو پہچانا جاتا ہے۔

یہ کرپٹو اینکرز بہت محفوظ ہیں کیونکہ ان کے کوڈ تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ ادویات بنانے کے کاروبار میں تیزی سے بڑھتے ہوئے فراڈ کے تناظر میں یہ مریضوں، ڈاکٹروں اور صحتِ عامہ کے حکام کو زیادہ تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

عوام کے لیے مفت وائی فائی

خاتون

ہمیں انٹرنیٹ کی اچھی رفتار اور اچھا معیار باآسانی دستیاب ہے اور اِسی لیے شاید ہمیں اِس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ لیکن دنیا میں بہت سے لوگوں کو ایک قابلِ اعتماد نیٹ ورک کی سہولت میسر نہیں ہے۔

صحت عامہ کے کسی بحران کے دوران اگر ڈیجیٹل رابطے ختم یا خراب ہو جائیں تو اِس کے خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں۔ دوا کے استعمال کی مقدار کا معلوم نہ رہنا، غلط ریکارڈ، خراب فیصلہ سازی، طبی غلطیاں اور وبا کے بارے میں نامکمل معلومات جیسے مسائل شامل ہیں۔

افریقہ جیسے برِاعظم میں 1.1 ارب افراد زیادہ تر موبائل انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں لیکن کنیکشن یعنی نٹورک بہت خراب ہے۔

بی آر سی کے نامی رضاکاروں کی ایک تنظیم نے موجا کے نام سے عوام کے لیے مفت وائی فائی ڈیوائس تیار کی ہے۔ یہ ڈیوائس ایسے علاقوں کے لیے تیار کی گئی ہے جہاں انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہے۔ مواد فراہم کرنے والے اس نیٹ ورک کی مدد سے لوگ اضافی اخراجات ادا کیے بغیر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جو بھی موجا کے سگنل کے دائرے میں ہے وہ انٹرنیٹ کا مفت استعمال کر سکتا ہے۔

موجا کے نیٹ ورک میں فیس بک، نیٹ فلیکس اور یوٹیوب موجود ہے۔

لیکن اصل بات یہ ہے کہ اب یہ باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ اِس کی وجہ سے بیماریوں کے روک تھام میں کتنی مدد مل سکتی ہے۔ اب لوگ فوری طور پر ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں اور اِس طرح ڈاکٹروں، مریضوں، ہسپتالوں کے حکام اور صحتِ عامہ کے رضاکاروں کے درمیان بہتر رابطے ہو سکتے ہیں۔