کالم

مجمو عی معیا ری پیداوار کا جا پا نی تصّور

Share

معیشت کے شعبہ میں پیدوارکے معیار کو یقینی بنا نے کا نظام گزشتہ چند دہا ئیوں میں دنیا بھر میں بہت مقبو ل ہوا ہے۔ معیا ری پیداوار کے اس نظریے کو صنعتی اداروں میں باالخصوص بہت مقبو لیت حا صل ہو ئی ہے۔ ٹو ٹل کوا لٹی مینجمنٹ یا T.Q.M))کے نام سے مشہو ر اس نظا م کو عا لمی سطح پر اہمیت ملنا قا بلِ فہم اور منطقی بھی ہے۔دنیا بھر میں پیداوار ی اداروں کی پیداوار کے معیا ر کو جا نچنے کے لیے بہت سا رے ادارے اور کئی تنظیمیں کا م کر رہی ہیں۔ برا ٓمدات کے شعبے سے وابستہ پا کستا نی جا نتے ہیں، کہ اگر یو رپ،امریکہ یا کسی بھی امیر ملک میں پا کستا نی مصنو عا ت بھیجنا چاہیں توعموماًاولین سوال یہ ہو تا ہے کہ آپ کے ادارے کے پا س پیداواری معیا ر سے متعلق کیا فلا ں سرٹیفیکیٹ مو جو د ہے؟اگر ایک ادارے کا نہیں تو پھر دوسرے کا؟درآمد کنندہ گا ن بڑی تسلی سے پہلے یہ تصدیق کرتے ہیں کہ کو ن سی معیا رسے متعلق کا م کرنے والی تنظیم پیداواری ادارے کے تیا ر کردہ ما ل کے معیا ری ہو نے کی ضما نت فراہم کر رہی ہے، اس کے بعد خریداری کا مر حلہ آتا ہے۔ اس با بت بہت سا رے عا لمی سطح پر صنعتی اور تجا ر تی ایوارڈز بھی قا ئم کیے گئے ہیں۔ میڈیا میں مصنو عا ت کے اشتہا رات کے سا تھ آپ کی توجہ اس طرح کے ایوارڈکے تذکروں نے بھی یقینا حا صل کی ہو گی۔ پیداواری معیا ر کو یقینی بنا نے کا جا پا نی تصورباقی دنیا سے ذرا منفر د نو عیت کا ہے۔ مجمو عی پیداوار کو معیا ری بنا نے کا ضا من یہ نظام اس قدر اہم ہے کہ پا کستا ن سمیت دنیا بھر کی اعلیٰ درس گا ہو ں میں معیشت اور تجا ر ت کے طلبا ء کو بطو ر مضمو ن پڑھا یا جا تا ہے۔ میں نے جن دنو ں MBA کیا تھا، تو ہما ری جما عت کے طلبا ء کو بھی یہ علم ایک الگ مضمو ن کے طور پر پڑھناپڑا تھا،جس کا نا م ہے۔

“Total Quality Management in Japanese Way”اشیاء کی مجموعی معیاری پیداوار یا T.Q.M کا جا پا نی تصور بہت دلچسپ اور بے مثال ہے۔ جیسا کہ ابتدا ء میں ذکر کیا،دنیا بھر میں کئی قابل ِبھر وسہ ادارے ہیں جو کہ صنعت وحر فت کے شعبے میں معیا ر کو جا نچنے کا کا م کرتے ہیں۔ جا پا ن میں مگر صرف صنعت ہی نہیں بلکہ پیداوار کے تما م شعبو ں میں معیا ر کو پرکھنے اور قا ئم رکھنے کا ایک مر بو ط نظا م مو جو د ہے۔
تمام عالم میں ہمیشہ سے ہی یہ رواج رہا ہے کہ صنعتی شعبے میں اشیا ء کو پیداوار کے بعد اچھی اور بری کوالٹی میں بانٹ دیا جا تا ہے۔ کہیں پر مصنو عات A، Bکیٹیگری اور پھر مستر د شدہ ما ل میں با نٹی جا تی ہیں۔ کہیں کہیں ان کو زیا دہ دلفریب نا مو ں کے سا تھ تقسیم معیا ری، نیم معیا ری، غیر معیا ری، نا قص، گھٹیا اور نا قابلِ فروخت اشیا ء میں تقسیم کیاجاتا ہے۔مصنو عا ت کے معیا ر کو جا نچنے کا جاپانی تصور ذرا مختلف ہے۔ تفصیل اس کی مختصراًیو ں ہے کہ یہاں پرمال کے معیار کی جانچ کو پیداوار کے آخر ی مرحلے پر نہیں ٹالا جاتا، بلکہ پیداوار کے دوران ہر مرحلے پر معیا ر کے یقینی ہونے کی تصدیق کی جا تی ہے اور غیر معیار ی پرزے، حصے یا ٹکڑے کو فو راً ہی الگ کر دیا
جاتاہے۔ مثال کے طور پر ٹی وی بنا تے ہو ئے،یہا ں اس کے ایک ایک بٹن، اسکرین، سوئچ، بلب، اور کل پر زے کی ہر پیداوار کے مرحلے پر الگ الگ جا نچ پڑتا ل کی جا تی ہے، لہٰذا جب ٹی وی ان تصدیق شدہ پرزوں کی مدد سے اسمبل کیا جا تا ہے تو پھر اس کے غیر معیا ری یا خراب ہو نے کے امکانا ت بہت کم رہ جا تے ہیں۔ بازار میں فروخت کے لیے پیش کر نے سے پہلے جب ٹی وی سیٹ کو چیک کیا جا تا ہے۔ تو اس کی تشکیل میں شا مل ہر پرزہ پہلے ہی بارہا معیا رکی کسوٹی پر پو را اتر کر آیا ہو تا ہے، اس لیے ان سے بننے والی چیز کا غیر معیا ری ہو نا محال ہے۔
پو ری دنیا میں مجمو عی معیا ری پیداوار کے جا پا نی تصور کی دھو م اور مقبو لیت ایک طرف کر دیں، اب تو پاکستان کے بہت
سا رے صنعتی ادارے اس تصور کو اپنا چکے ہیں۔ کا فی ایسے ہیں جو اس کو اپنا نے کا سو چ رہے ہیں۔ اس کی وجہ بہت سا دہ اور واضع ہے، اگر کو ئی کاروبا ری ادارہ ہر سطح پر پیداواری معیا ر کی جانچ رکھتا ہے تو پھر آخری مرحلے پر اس کا مسترد مال بہت کم رہ جا تا ہے۔ یہ تصور فقط معیا ر سے محبت اور تحفظ کا نہیں بلکہ کا روبا ری منا فع اس کا منطقی نتیجہ ہے۔ پا کستا ن کے ایک فریج اور ائیر کنڈیشن بنا نے والے ادارے نے چند سا ل قبل مذکو رہ نظام اپنا یا تھا۔اس کمپنی کے مالک کا کہنا ہے کہ چند سا لو ں کے دوران اس کے مسترد شدہ مال کا تنا سب پہلے کی نسبت بیس فیصد رہ گیا یعنی پہلے اگر ایک ہزار فر یج بنا تے تھے تو اس میں سے اوسطا ًپچا س خرا ب نکلتے تھے۔ اب مجمو عی معیا ری پیداوار کے جا پا نی طرز کو اپنا نے کے بعد ایک ہزار میں سے بمشکل دس فریج خرا ب نکلتے ہیں۔ کیو نکہ خرا ب پرزوں کو تو پہلے ہی ہرمر حلے پر الگ کر دیا گیا ہو تا ہے۔
جا پا ن میں آنے کے بعدیہ عقدہ کھلاکہ ہم درس گا ہ میں مجمو عی معیا ر کے متعلق جس جاپا نی پیداواری تصوّر کو مضمون کے طور پر پڑھتے ہیں،وہ فقط پیداواری شعبے تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ تما م شعبہ ہائے زندگی میں کا رفر ما ہے۔ سچ پو چھیے تو معیاری پیداوار کے اس طریقے کا بنیا دی محرک کا روبا ری منا فع نہیں،بلکہ یہ جا پا نیوں کا طرزِ حیا ت ہے، جو کہ اتفا ق سے صنعتی و معا شی شعبے میں آشکار ہو رہا ہے۔ یہا ں داغدار یا عیب دار چیز کی خرید و فروخت کو معا شرتی طور پربرا سمجھا جا تا ہے۔کسی چیز کا سستا ہو بعد کی با ت ہے، سب سے پہلا تقا ضا یہ ہے کہ اس معیا ری ہو نا چا ہئیے۔ چین سے آئے ہو ئے دوست بتا تے ہیں کہ جا پان میں فرو خت ہو نے والی چینی
مصنوعا ت جس اعلیٰ معیار کی ہیں، وہ چین کے اند ر چینیوں کو بھی دستیا ب نہیں ہیں۔ معیاری پیداوار کے جا پا نی تصور کے پسِ منظر میں یہ سما جی شعور اور اجتما عی سو چ کار فرما نظر آتی ہے کہ اپنے کا م کی انجا م دہی میں غلطی کا امکان صفر ہو نا چا ہئیے۔ اس معا شرے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہا ں غلطی کی گنجا ئش گوارا نہیں کی جا تی۔ معا فی اور رحم کا جو تصور ہمار ے ہا ں پا یا جا تا ہے،وہ یہا ں عنقا نظر آتا ہے۔ پرانے وقتو ں میں جب جا پا ن میں جا گیر دار انہ نظام رائج تھا، با دشا ہ کی زیر سرپر ستی ملک کے طو ل و عرض میں ”سمو رائی“ حکو مت کر تے تھے، تب اگر کسی سے غلطی ہو جا تی تو وہ اپنا پیٹ تلوار یا خنجر سے چا ک کرکے خو دکشی کر لیتا تھا، جسے ”ہارا کیری“ یعنی پیٹ چا ک کہا جا تا رہا ہے۔ اب بھی ما فیا کے ارکا ن جنہیں ”یاکو زا“ کہا جا تا ہے، اگر کو ئی غلطی کر ے تو اسے اپنی ایک انگلی، یا پھر انگلی کا حصہ کا ٹنا پڑتا ہے۔ غلطی کے امکا نا ت کو ختم کر نے کے لئے یہاں ہر شعبہء زندگی میں معیا ر کی ہر مر حلے پر پڑتا ل کی جا تی ہے۔ غلطی سے مبّرا ہو نے کی
کو شش کا یہی محتا ط رویہ ہمیں پیداوارای شعبے میں بھی نظر آتا ہے۔ ورنہ عا م جا پا نی کے تو علم میں بھی یہ با ت نہیں ہو گی کہ ان کے پیداواری طریقے کو دنیا باقا عدہ درسی مضمو ن کے طور پر پڑھ رہی ہے، اس پر تحقیق اور تقلید کر رہی ہے۔