کالم

پاک سعودی تعلقات کی نزاکت

Share

آئے روز ہمارے ہاں کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے وہ بھی بیٹھے بٹھائے۔ ایک وزیر صاحب کے بیان نے ہمارے تمام ہوا بازوں کی تعلیم اور تربیت کو مشکوک بنا دیا۔ نتیجہ یہ کہ پہلے سے مسائل میں گھرا ہوا پی۔آئی۔اے ایک نئے مالی بحران میں مبتلا ہو گیا۔ کئی ممالک نے ہماری پروازوں پر پابندی لگا دی اور بیرونی فضائی کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے ہمارے درجنوں پائیلٹ پلک جھپکنے میں بے روز گار ہو گئے۔ یقینا حکومت کو بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا لیکن چونکہ یہ اپنا ہی کیا دھرا تھا لہذا خاموشی چھا گئی۔ افسوس ہوتا ہے کہ اتنی اہم سطح پر اس طرح کی بھول چوک کیسے ہو گئی؟ کیوں اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ جب ہم یہ اعلان کریں گے کہ ہمارے اڑھائی سو کے لگ بھگ ہوا باز جعلی سرٹیفکیٹس لئے پھرتے ہیں تو دنیا میں اس کا رد عمل کیا ہو گا؟ بھارت اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا اور ہمارے دشمنوں کو پروپیگنڈے کا کیسا موقع ملے گا؟
ابھی ایک اور سنگین مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جس کا تعلق ہمارے عظیم برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے ہے۔ خیر سے یہ چنگاری بھی ہمارے ایک نہایت تجربہ کار اور سینئر وزیر صاحب نے بھڑکائی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا ردعمل ہو نا تھا جو ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ سعودی عرب نے ہمارے قومی خزانے میں رکھی رقوم میں سے کتنی نکلوا لیں۔ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ یہ رقم ہمارے زر مبادلہ کا حجم بڑا دکھانے کیلئے ہماری تجوری میں رکھ دی گئی ہے لیکن اب پتہ چلا ہے کہ یہ رقم تین فیصد کے لگ بھگ شرح سود پر بطور قرض ہمیں ملی تھی۔ اسی طرح تین سال کے لئے ادھار تیل دینے کی سہولت نے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا تھا۔ یہ قرض یا سہولتیں صرف موجودہ حکومت سے تعلق نہیں رکھتیں، سعودی عرب نے ہر جمہوری یا غیر جمہوری حکومت میں پاکستان کی ہر ممکن مدد کی۔۔ زلزلے ہوں یا کوئی اور آسمانی آفت، کھلے دل سے ہمارا ساتھ دیا۔ یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دوستوں میں اضافہ نہیں ہوا کمی آئی ہے۔ ایسے ممالک ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنوائے جا سکتے ہیں جنہیں ہم اپنا دوست قرار دے سکتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ جس طرح گھر کے قریب تریں افراد، رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں میں بھی کبھی کبھار کوئی رنجش پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح دوست ممالک کے تعلقات میں بھی اونچ نیچ آتا رہتا ہے لیکن دانش مندی اور حکمت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ بات کو بڑھنے نہ دیا جائے۔
موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی اس طرح کی صورتحال پید اہوئی تھی جب ابھی ہم نے آئی۔ایم۔ایف سے رجوع نہیں کیا تھا اور سعودی عرب سے مدد کی امید باندھی تھی۔ اس امید کے پورا ہونے میں قدرے تاخیر ہوئی، تو اس وقت بھی ایک وزیر صاحب نے خفگی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم عمران خان نے ذاتی طور پر تعلقات کی بہتری کیلئے کوشش کی۔ ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان تشریف لائے تو اظہار محبت اور خیر سگالی کے طور پر وزیر اعظم نے نہ صرف ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا بلکہ خود ان کی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاوس لائے۔ مالی پیکج اور ادھار تیل کی فراہمی کے علاوہ سعودی حکومت نے گوادر میں بڑی سرمایہ کاری کا عہد بھی کیا۔
اب یکایک ایسا کیا ہوا کہ ہمارے باہمی تعلقات میں تلخی آگئی؟ یہاں تک کہ آرمی چیف کو ڈی۔جی۔آئی۔ایس۔آئی کے ہمراہ سعودی عرب جا کر معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کرنا پڑی۔ بظاہر یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے وزیر خارجہ صاحب کو کشمیر کے حوالے سے اسلامی کانفرنس تنظیم کی خاموشی اور غیر فعالیت پر غصہ آیا اور انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہہ دیا کہ اگر سعودی عرب، کشمیر پر اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس یقینی نہیں بناتا تو پاکستان ایک متبادل بلاک کی طرف دیکھے گا۔ ظاہر ہے کہ سعودی عرب اس متبادل بلاک کے بارے میں شدید جذبات رکھتا ہے جسکی وجہ سے پاکستان، وعدہ کر کے بھی اس بلاک کے اجلاس میں نہیں جا سکا تھا۔ سو اس بیان کو سعودی عرب نے شدت سے محسوس کیا۔ کچھ رقم واپس لے گئے۔ تیل کی سہولت میں رکاوٹ آئی۔ پاکستان میں تقریبا نو برس تک ایک انتہائی اہم سعودی سفیر عوارض العصیری (یقینا سعودی حکومت کے ایما پر) ایک طویل مضمون لکھا جس میں تجربہ کار سفارت کار نے توازن برقرار رکھنے کی تو بہت کوشش کی لیکن سعودی حکومت کی ناراضگی صاف جھلک رہی تھی۔

توقع ہے کہ فوجی قیادت کے حالیہ دورے کے بعد معاملات میں بہتری آچکی ہو گی کیوں کہ اسی میں دونوں ممالک کا مفاد ہے۔ جہاں سعودی عرب نے دکھ سکھ میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ وہاں پاکستان نے بھی حرمین شریفین کی سرزمین کیلئے دفاع اور تحفظ کو پاکستان کے دفاع اور تحفظ سے کم نہیں سمجھا۔ آج بھی ہماری مسلح افواج کے دستے اس مشن کیلئے وہاں موجود ہیں۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے ہمیں بجا طور پر اپنے دوستوں سے امید ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔ بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی کھل کر مذمت کریں۔ نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا نوٹس لیں۔ لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی ضرور جھانکنا چاہیے۔ تہتر برس ہو گئے۔ ہم کشمیر کے حوالے سے صرف تین الفاظ کی گردان کر رہے ہیں۔۔۔۔ “سفارتی، سیاسی، اخلاقی” امداد۔ ایک سال پہلے بھارت نے آئینی تحفظ دور کر کے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیالیکن ہم دنیا کو نہیں ہلا سکے۔ یہاں تک کہ اس سانحے کے بعد جب سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے انتخاب کی باری آئی تو ہم نے رسمی احتجاج بھی نہ کیا اور بڑے شوق سے اپنا ووٹ بھارت کو دے دیا۔ کم از کم اتنا تو کہا ہی جا سکتا تھا کہ تازہ بھارتی اقدام کی وجہ سے ہم اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ دنیا کے کان تو کھڑے ہوتے کہ بھارت نے ایسا کیا کیا ہے۔مگر ہم نے اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ہاں کشمیر جیسے اہم معاملے پر بھی سیاست ہوتی رہی ہے۔2016 میں ترک صدر رجب طیب اردگان پاکستان تشریف لائے تھے۔ برہان وانی کی شہادت اور کشمیر میں اٹھنے والی مظالم کی ایک نئی لہر کے تناظر میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلوایا گیا تھا۔ ترک صدر نے اس مشترکہ اجلاس سے خطاب فرمایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان سے یکجہتی کا تاثر جاتا۔ بھارت کو یہ پیغام ملتا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قوم میں کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں۔لیکن اس وقت تحریک انصاف نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ بھارتی میڈیا اس پر خوشی کے شادیانے بجاتا رہا۔بھارتی اخبارات میں بڑی بڑ ی سرخیاں لگیں کہ پاکستانی پارلیمان کشمیر کے مسئلہ پر یکسو نہیں، بلکہ تقسیم(divided) ہے۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر پر ہم ضرور اپنی پالیسی کو مضبوط بنائیں۔ لیکن سعودی عرب جیسے دوست ملکوں کو اپنے ساتھ رکھنے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے ہمیں ذیادہ بہتر حکمت عملی بنانا ہو گی۔